خصوصی فیچرز

انسانی تاریخ کا سب سے لمبا انسان کون تھا۔۔؟؟


عوج بن عنق دُنیا کا لمبا ترین انسان تھاطوفان حضرت نوح علیہ اسلام میں بچ گیا۔طوفان نوح میں عوج بن عنق کے علاوہ کوئی بھی غرق ہونے سے نہ بچ سکا ماسوائے جو لوگ کشتی میں حضرت نوح علیہ اسلام کے ساتھ سوار تھے۔اس کی نجات کا سبب یہ تھا کہ حضرت نوح علیہ اسلام کو کشتی بنانے کے لئے ساگوان کی لکڑی کی ضرورت تھی مگر اس کو اُٹھا کر لانا ممکن نہ تھا عوج بن عنق وہ لکڑی شام سے اُٹھا کر لایا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کو قبول کیا اور اسے غرق ہونے سے نجات دی۔ بعد از جب فرعون کے دریائے نیل میں غرق ہونے کے بعد جب بنی اسرائیل کی قوم کو اس کے ظلم و جبر سے نجات پاگئی تو اس کے کچھ عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ملک شام کی سر زمین سے ظالم لوگوں کو نکال دو اور خداکی راہ میں دشمنوں سے جہادکرو اور اپنی قوم میں سے بارہ افراد کوبارہ قبیلوں پر سردار مقرر کرو تاکہ یہ سب اپنے سرداروں کے تابع رہیں اور اللہ کے احکام کی پابندی کرتے رہیں پس حضرت موسی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ہارون علیہ السلام جہاد کے لئے اپنے سرداروں اورقوم کے ساتھ جب کنعان کے مقام پرپہنچے تو اپنے سرداروں کو حکم دیاکہ وہ ملک شام جاکر وہاں کے ظالم لوگوں کے حالات معلوم کریں۔

جب یہ لوگ وہاں پہنچے اوروہاں کے حالات معلوم کئے توانھوں نے وہاں کے حالات معلوم کئے توانھوں نے وہاں ایک بہت بڑے قدوقامت والا انسان دیکھا جس کا نام عوج بن عنق تھا۔عوج بن آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے زمانے تک زندہ رہا۔ اسکی 3500سال تھی۔ اسکی ماں کانام صفورہ اور باپ کا نام عنق تھا۔طوفان نوح علیہ اسلام میں سے یہ ہی شخص بچا تھا۔ اپنے طویل قد کی وجہ سے یہ شخص سمندر میں کھڑا ہوتا تو پانی اسکے ٹخنوں تک ہوتا تھا۔ عوج بن عنق سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر آسماں کی طرف کرتا سورج کی تپش سے مچھلیاں بھون کر کھاتا تھا۔عوج بن عنق نے جب ان سرداروں کو دیکھا تو ان سے معلوم کیا تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جارہے ہو۔ ان سرداروں نے جب اُسے اپنا حال بیاں کیا تو اس نے ان سب کو پکڑ لیا اور اپنی بیوی کو دکھانے کے لئے لے گیا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا۔دیکھو یہ سب میرے ساتھ لڑنے کے لئے آئے ہیں یہ کہہ کر انھیں زمین پر رکھ دیا اور انھیں چیونٹی کی طرح پاؤں سے مسلنے لگا تو اسکی بیوی نے کہا ان کو چھوڑ دو یہ کمزور اور ناتواں ہیں۔ خوبخود چلے جائیں گے تجھ کو انھیں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا پس یہ سردار ظالمون اور جابروں کی کثرت سے ڈر گئے۔ واپس آکر انھوں نے ملک شام کی ساری باتیں اور دشمن کی قوت کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو گوش گزار کیں۔ اور بیان کیا کہ وہاں کے پھل بہت بڑے ہیں۔

اگر ایک دانہ انار کا نکالیں تو آدمی سیر ہوجائے اور اگرانگور کا ایک دانہ کھایا جائے تو پھر دوسرا دانہ نہ کھایا جائے گا۔ جو نشانیاں اور پھل فروٹ لائے وہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو پیش کردئیے۔حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اپنے سرداروں سے کہا کہ یہ باتیں اپنی قوم کو لوگوں کو مت بتانا کہ دشمن کی قوت کتنی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ تو پہلے ہی بزدل ہیں اور جہاد سے بھاگ جائیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے اس حکم پر بارہ سرداروں میں سے صرف دو سردار اپنے وعدے پر قائم رہے۔ باقی دس سرداروں نے عہد شکنی کی اور قوم کے لوگوں کو وہاں کا سارا ماجرا اور اوج بن عنق کے ہاتھوں پکڑے جانے کا واقعہ بھی بیان کر دیا۔جب موسیٰ علیہ اسلام کی قوم نے یہ سارا واقع سنا تو ڈر کر جہاد سے کترانے لگے اور مصر واپس جانے کی تیاری میں لگ گئے۔حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اپنی قوم سے فرمایا اے لوگو! تم جہاد سے مت گھبراؤ اور جہاد سے مت بھاگو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تمہیں ان کافروں پر فتح دوں گا۔ تو قوم نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی قوم کے دو سردار یوشع بن نون اور کالات بن قتاوہ اپنے وعدے پر قایم رہے اور اپنی قوم سے کہنے لگے اے قوم ٹھہر جاؤ اورجہاد کرو اللہ تعالیٰ تم کو فتح دے گا اور حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے وعدہ کیا ہے کہ اللہ تم کو ضرور فتح دے گا اور انکو ہلاک کرے گا جس طرح فرعون کو ہلاک کیا تھا۔ جب تم لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے۔ قوم نے کہا کہ ہم ساری عمر وہاں نہیں جائیں گے۔ اے موسیٰ  تو جان اور تیر رب دونوں جا کر ان سے لڑو ہم تو ہیں بیٹھے رہیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے ان سے غصہ ہوکر ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بد عا کی۔ جس کی وجہ سے شام کی فتح میں چالیس سال کی تاخیر ہوئی اس مدت میں بنی اسرائیل کے نافرماں لوگ جنگلوں میں بھٹکتے رہے۔ دوسری طرف جب حضرت موسیٰ علیہ اسلام ہاتھ میں اپنا عصا لئے حضرت ہارون علیہ اسلام کے ہمراہ ملک شام روانہ ہوگئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی باغی قوم نے بنی اسرائیل نے واپس مصر جانے کا ارادہ کیا، تمام رات چلتے رہے مگر جب صبح ہوئی کہ دیکھا جہاں سے روانہ ہوئے تھے اب تک وہیں پر موجود ہیں۔وہ سمجھے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی بد دُعا سے یہ حال ہوا ہے، تب یوشع بن نوں نے ان سے کہاکہ اس میدان میں ٹھرجاؤ اور صبر کرؤ اور استغفار پڑھو جب تک حضرت موسیٰ علیہ اسلام شام فتح کرکے واپس نہ آجائیں۔

بنی اسرائیل کی قوم کے چھ لاکھ افراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بد دُعا سے چالیس سال تک اس جگہ سے نہ نکل سکے اس جگہ کا نام تیہ ہے۔ جو فلسطین، اُردن اور مصر کے درمیان ایک میدانی علاقہ ہے۔ غرض کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام جب عوج بن عنق کے شہر کے نزدیک پہنچے تو لوگوں کی ہیبت ناک شکلیں دیکھ کر ڈر ے اور اللہ کی مدد مانگ کر آگے بڑھے۔ جب عوج بن عنق نے ان کو دیکھا تو چاہا کہ پکڑ کر چیونٹی کی طرح مسل دے اور کہنے لگا کہ تو بنی اسرائیل کا وہ سردار ہے جس نے فرعون کو اسکی فوج کے ساتھ دریائے نیل میں غرق کردیا تھا۔یہ کہ کر اُسنے حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر حملہ کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا قد ستر فٹ تھا اور اُنھوں نے ستر فٹ اچھل کر اپنا عصاء جوکہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے قد کے برابر تھا عوج بن عنق کے ٹخنے پر مارا جس سے وہ گر کر ہلاک ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ عوج بن عنق کی لاش 40سال تک وہیں پر پڑی رہی اس عرصہ میں اُس کا جسم گل گیا اور صرف ڈھانچہ رہ گیا جب حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور حضرت ہاروں جہاد سے سرخرو ہوکر واپس لوٹے تو اس کے ڈھانچے کو اُٹھا کر دریائے نیل پر رکھ دیا اور ایک عرصے تک وہ ڈھانچہ دریائے نیل پر پُل کا کام دیتا رہا۔