خصوصی فیچرز

!!–اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو


مصطفی کمال پاشا کوترک قوم اتا ترک یعنی ترکوں کا باپ کہتی ہے۔ اتا ترک جدید ترکی کے بانی تھے اور ان کا شمار بیسویں صدی کے دس بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ ان کے والد ایک چھوٹے سے سوداگر تھے لیکن اتا ترک نے تجارت کی بجائے فوج کو اپنا پیشہ بنایا۔ مصطفی کمال پاشا میں دو ایسی خوبیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ دنیا کے بہت کم لوگوں کو نصیب کرتا ہے۔ اتاترک بے انتہا بہادر انسان تھے اور دوسرا اللہ تعالیٰ نے انہیں انتہائی مضبوط قوت فیصلہ دے رکھی تھی۔ آپ ان کی بہادری کا اندازا صرف ایک واقعے سے لگا لیجیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتا ترک فوج میں کرنل تھے۔ان کی یونٹ گیلی پولی کے مقام پر تعینات تھی۔ ان کے پاس جوانوں اور اسلحہ کی شدید کمی تھی‘ 25اپریل 1915ء کو اچانک برطانوی فوج کا ایک بہت بڑا لشکر گیلی پولی پہنچ گیا۔ یہ لشکر سمندر میں تھا جبکہ اتا ترک کے جوان خشکی پر تھے اور ان چند جوانوں نے برطانوی لشکر کو خشکی پر اترنے سے روکنا تھا۔ اتا ترک کے جوان لڑائی کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی کم تھا اور تعداد بھی۔ برطانوی فوج نے ساحل کے قریب پہنچ کر بحری جہاز سے ترکوں کے مورچوں پر بمباری شروع کر دی۔ اتا ترک نے اپنے فوجیوں کو گھبرائے ہوئے دیکھا تو وہ مورچے سے نکلے اور ٹہلتے ٹہلتے پانچ فٹ اونچی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئے‘

انہوں نے ٹانگ کے اوپر ٹانگ چڑھائی‘ جیب سے سگریٹ نکالا‘ سلگایا اور اطمینان سے سگریٹ پینے لگے‘ وہ اس قدر (ویزی ایبل) تھے کہ برطانوی فوجی انہیں اپنے جہاز سے دیکھ رہے تھے۔ برطانوی فوج نے انہیں ٹارگٹ کیا اور توپ سے ان کی طرف گولہ داغ دیا۔ گولہ اتا ترک سے دو سو گز کے فاصلے پر گرا۔ بارود‘ پتھر اور مٹی اڑی لیکن اتا ترک اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے۔ اگلا گولہ ان سے سو فٹ کے فاصلے پر پھٹا لیکن وہ اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے ۔ تیسرا گولہ ان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کی پشت پر پچاس فٹ دور گرا۔ ایک دھماکہ ہوا اور اتا ترک دھوئیں اور غبار میں گم ہو گئے۔ان کے ساتھیوں اور برطانوی فوجیوں کو محسوس ہوا کرنل مصطفی کمال شہید ہو چکے ہیں لیکن جب دھواں ختم ہوا تو جوان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتاترک دیوار پر بیٹھ کر اسی طرح سگریٹ پی رہے تھے۔ مصطفی کمال نے سگریٹ کا ٹوٹا نیچے پھینکا‘ اسے جوتے سے بجھایا‘ قہقہہ لگایا اور واپس اپنے مورچوں کی طرف چل پڑے۔ مورچوں کے پاس پہنچ کر انہوں نے اپنے جوانوں سے کہا ”میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی“۔ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں موت صرف ایک بار آتی ہے‘ بار بار نہیں آتی چنانچہ ڈرنا اور گھبرانا بند کر دو“۔

اتا ترک کے ان دو فقروں نے جادو کا کام کیا‘ ترک جوانوں نے حوصلہ پکڑا اور برطانوی لشکر کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ گیلی پولی کی یہ وہ فتح تھی جس نے مصطفی کمال پاشا کو آنے والے دنوں میں بین الاقوامی لیڈر بنا دیا۔ 1921ء میں جب عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور دنیا کی بڑی طاقتوں نے ترکی کو آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا تو اس وقت اتا (ترک نے نعرہ لگایا‘ میں ترک ہوں اور ترکی کے مقدر کا فیصلہ میں نے کرنا ہے“ اس نعرے کے بعد انہوں نے ترک قوم کو اٹھایا اور ترکوں نے آزادی حاصل کر لی۔ پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے ملک فیروز خان نون کو اپنا نمائندہ بنا کر ترکی بھجوایا تھا۔ نون صاحب اتا ترک کے ایک قریبی دوست اور مشیر سے ملے اور اس سے پوچھا ”ہم پاکستان کو ایک جدید اور کامیاب ملک کیسے بنا سکتے ہیں“۔ اتا ترک کے مشیر نے فیروز خان نون کو دو مشورے دئیے تھے‘ میں آج یہ سمجھتا ہوں اگر ہم نے 1947ء یا 1948ء میں ان دونوں مشوروں پر عمل کیا ہوتا تو آج کا پاکستان ایک مختلف پاکستان ہوتا‘ ایک انہوں نے کہا تھا کسی بھی انقلاب کے بعد پہلے دو سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ آپ نے شروع کے دو برسوں میں اس ملک کو جو بنیاد فراہم کر دی یہ ملک اس کے بعد اسی بنیاد پر کھڑا ہوگا چنانچہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں پہلے دو برسوں میں کر لیں‘ دو برس بعد لوگوں کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ دو۔۔ اپنے سارے فیصلے خود کریں‘ کسی دوسرے ملک‘ کسی دوسری طاقت کو اپنے فیصلے نہ کرنے دیں۔ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔