خصوصی فیچرز

جب دوسرے بچے کےلئے


بچہ بھوکا ہے صاحب! کچھ دے دو‘گود میں بچہ اٹھائے ہوئے ایک نوجوان عورت ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہی تھی۔اس کا باپ کون ہے؟ پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟سیٹھ جھنجلا کر بولا۔ عورت خاموش رہی۔
سیٹھ نے اسے سر سے پاو¿ں تک دیکھا‘ اس کے کپڑے میلے اور پھٹے ہوئے تھے لیکن تھی وہ خوبصورت اور سڈول‘ نین نقش بھی اچھے تھے‘ سیٹھ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ‘ وہ سہم کر پیچھے ہٹ گئی‘ سیٹھ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی‘ سیٹھ اسے پچکار کر بولا‘ میرے گودام میں کام کرے گی؟ کھانے کو بھی ملے گا‘ اچھے کپڑے بھی دلاﺅںگا اور پیسہ بھی خوب ملے گا۔


بھکارن سیٹھ کو ٹکی ٹکی باندھ کر دیکھتی رہی‘سیٹھ پھر بولا‘فکر نہ کر‘ بہت پیسے ملیں گے۔بھکارن نے پوچھا‘سیٹھ تیرا نام کیا ہے؟سیٹھ سٹپٹا گیا‘ نام۔۔۔ تجھے نام سے کیا غرض ہے؟بھکارن کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی‘ وہ بولی ‘جب دوسرے بچے کے لئے بھیک مانگوں گی تو لوگ اس کے باپ کا نام پوچھیں گے۔
یہ کہانی ہمارے معاشرے کے ایک کڑوے سچ کو بیان کرتی ہے اور ایسا ہی کڑوے سچ کی نمائندگی کرتی اس نظم کو بھی پڑھیے اور اپنے معاشرے کی بے حسی پر ماتم کیجیے

خدا سے دیکھو کتنا ڈر رہا ہوں
تجوری جیب دونوں بھر رہا ہوں
میرا بھائی ہے بھوکا تین دن سے
میں چوتھی بار عمرہ کر رہا ہوں
نمازی ہوں میں پکا پنجگانہ
مگر جھوٹی تجارت کر رہا ہوں
میں مسجد سنگ مرمر کی بناکر
پڑوسی کے مکاں کو ڈھا رہا ہوں


شریعت کی حفاظت میرا مقصد
طریق کفر پر میں چل رہا ہوں
وراثت بہن کی چپکے سے کھاکر
معافی کا بہانہ کر رہا ہوں
جوہو شادی توسودی قرض لے لوں
نمود و نام پر میں مر رہا ہوں
نبی کی زندگی کو ترک کرکے
نبی سے محبت سچی کر رہا ہوں
یہ چاہت ہے کہ کافر ہوں مسلماں
مگر اسلام سے خود ڈر رہا ہوں
میرے اللہ مجھ کو معاف کرنا
یہ کس کی پیروی میں کررہا ہوں؟