فیروز شاہ تغلق کو پتا لگا کہ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ جو حضرت صابر پیارحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے‘ آج کل بہت مفلوک الحال ہیں کہ ان کے گھر کی دیواروں میں گڑھے پڑ چکے ہیں‘ چھتیں ٹپک رہی ہیں اور دروازے کی کنڈی بھی ٹوٹی ہوئی ہے‘ فیروز شاہ تغلق آپ کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا‘ بہت زیادہ عقیدت مند تھا ‘ ارادت مند تھا‘ بہت سا سامان اپنے ساتھ لیا اور حضرت کی خدمت حاضر ہو گیا اور کہا کہ نذر قبول فرمائیں‘حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے دیوار پر تھوکا اور کہا‘ اے بادشاہ! ذرا نظر تو اٹھا‘ بادشاہ نے دیکھاتو دیوار سونے کی مانند ہو چکی تھی‘
حضرت نے کہا تو یہ ہمارا تھوک ہمیں دینے آیا ہے‘ ہم تو ایسی زندگی اس لئے گزار رہے ہیں کہ کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے‘ ہمیں اعلیٰ سامان نہیں چاہیے‘ ہم نے کملی والے کی سنت سنبھالنی ہے اور مال سے نفرت کرنی ہے‘ اس جو مال سمیٹ کر جائے گا وہ بھی اپنا حساب لگا لے اور جس نے مال نہیں سمیٹنا اس کیلئے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں فراخی ہی فراخی ہے۔
یہاں آپ نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم مال کے عذاب میں گرفتار نہ ہوں‘ آپ امت کو دیکھ لیں کہ جب تک مسلمان مال کے عذاب میں گرفتار نہ ہوئے ان کی ہیبت تمام کفار پر تاری رہی‘ دنیا کی دو اس وقت کی سپر پاورز قیصروکسریٰ کس نے ان کو تہ تیغ کیا؟ کس نے ان کی حکومتوں کو الٹ دیا اور وہاں اسلام پھیلا؟
ان مفلس مسلمانوں نے کہ جب وہ سفر کرتے تھے تو اونٹ پر باری باری چڑھتے تھے‘ ایک اونٹ چار آدمیوں کے حصے میں آتا تھا‘ ایک گھوڑا تین تین آدمیوں کے حصے میں آتا تھا مگر جب مال کی محبت میں گرفتار ہوئے تو ننگی پیٹھوں پر سفر کرنے والے تاتاریوں نے اڑا کر رکھ دیا مسلمانوں کو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کو نہیں پہنچا‘ فرشتے ان کی مدد کو نہیں اترے
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں‘ اگر آپ چاہتے ہیں کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو بلند کرنا تو اس کا یہی طریقہ ہے کہ خود بھی مال کی محبت سے نکل جائیں اور دوسرے کو بھی تلقین کریں‘ اپنی سادہ زندگی تک‘ میانہ روی تک محدود ہو جائیں۔