خصوصی فیچرز

یہ وقت بھی گزر جائے گا


جلال الدین محمد اکبر ہندوستان کا مشہور بادشاہ تھا‘ یہ بادشاہ اپنی چار خصوصیات کے باعث تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کی پہلی خوبی اس کے اقتدار کی طوالت تھی یہ قریباً پچاس سال تک ہندوستان کا بادشاہ رہا۔ اس کے بعد صرف اورنگ زیب عالم گیر کو اتنی لمبی بادشاہت نصیب ہوئی۔ اس کی دوسری خوبی اس کی سلطنت کی طوالت تھی۔ اس کا شمار ہندوستان کے ان تینوں بادشاہوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پورے برصغیر پر حکومت کی تھی۔ اس کی تیسری انفرادیت دین اکبری تھا۔ اس نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی تھی لیکن یہ مذہب اس کے ساتھ فوت ہو گیا اور اس کی چوتھی اور آخری خوبی اس کے نورتن تھے۔

جلال الدین محمد اکبر ایک ان پڑھ شخص تھا مگر اس نے اپنی اس خامی کے تدارک کیلئے ہندوستان بھر سے نو دانش مند‘ ذہین‘ عالم اور باکمال لوگ آگرہ میں جمع کئے اور انہیں اپنا وزیر اور مشیر بنا لیا۔ یہ نو عالم تاریخ میں نورتن کے نام سے مشہور ہیں اور یہ اکبر اعظم کی اصل قوت بھی تھے۔ ان نورتنوں میں راجہ بیربل بھی شامل تھا۔ بیربل کا اصل نام مہیش تھا‘ یہ ذات کا بھانڈ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بے تحاشا ذہانت سے نواز رکھا تھا۔ یہ شروع میں انتہائی غریب اور مفلوک الحال تھالیکن یہ ایک اتفاق سے اکبر اعظم کے دربار میں آ گیا اور اس نے اپنی باتوں کے ذریعے اکبر اعظم کو متاثر کر لیا۔ اکبر نے اسے شروع میں اپنے دربار کا حصہ بنایا اور بعدازاں اپنے نورتنوں میں شامل کر لیا۔ بیربل اپنی حرکتوں اور باتوں سے غیر سنجیدہ انسان دکھائی دیتا تھا لیکن وہ بے انتہا سنجیدہ‘ دانش مند اور عالم انسان تھا۔ وہ ہندی زبان کا شاعر بھی تھا۔ وہ جب ایک جنگ کے دوران مارا گیا تو اکبر کو اتنا صدمہ پہنچا کہ اس نے دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا۔ بیربل کس قدر سمجھدارانسان تھا آپ اس کا اندازا اس چھوٹے سے واقعے سے لگا لیجئے۔

اکبر اعظم نے ایک دن اپنے دربار میں ایک انگوٹھی دکھائی اور اپنے تمام درباریوں سے کہا ”میں چاہتا ہوں آپ میں سے کوئی شخص اس انگوٹھی پر کوئی ایسا فقرہ لکھ دے جسے میں خوشی کے وقت پڑھوں تو میں اداس ہو جاؤں اور جب میرے اوپر اداسی کا وقت آئے تو میں یہ فقرہ پڑھوں اور میں خوش ہو جاؤں“ دربار میں سے کسی نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ جب سب ہار گئے تو بیربل آگے بڑھا‘ اس نے بادشاہ سے انگوٹھی لی ‘ ایک دن کی مہلت طلب کی اوردوسرے دن بادشاہ کو انگوٹھی واپس کر دی۔ بادشاہ نے انگوٹھی دیکھی تو اس پر لکھا تھا ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“۔ یہ فقرہ خواتین وحضرات اس قدر جان دار تھا کہ جب بادشاہ اداس ہوتا تھا تو وہ اپنا ہاتھ اوپر کر کے انگوٹھی پر نظر ڈالتا تھا اور یہ پڑھ کر کہ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ خوش ہو جاتا تھا اور وہ جب خوشی کے عالم میں یہ پڑھتا تھا ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ تو وہ اداس ہو جاتا تھا۔