چارلی چپلن کا کہنا ہے کہ وہ بچپن میں ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ سرکس کا شو دیکھنے گیا‘ وہ کہتا ہے کہ ہم لوگ سرکس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم سے آگے ایک فیملی تھی ‘جس میں چھ بچے اور ان کے والدین تھے‘ یہ لوگ دیکھنے میں خستہ حال تھے‘ ان کے بدن پر پرانیمگر صاف ستھرے کپڑے تھے‘ بچے بہت خوش تھے‘ اور سرکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے‘ جب ان کا نمبر آیاتو ان کا باپ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کے دام پوچھے جب ٹکٹ بیچنے والے نے اسے ٹکٹ کے دام بتائے تو وہ ہکلاتے ہوئے پیچھے مڑا اور اپنی بیوی کے کان میں کچھ کہا‘اس کے چہرے سے اضطراب عیاں تھا۔
اس کی بیوی بھی پریشان ہو گئی لیکن وہ بچوں کوپر اپنی پریشانی ظاہر نہیں کرنا چاہ رہے تھے‘ میرے والد ان کی پریشانی سمجھ گئے۔ میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا‘ میرے والد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے ان کی مدد کرے‘اچانک میرے والد نے ایک عجیب حرکت کی‘ انہوں نے اپنی جیب سے بیس ڈالر کا نوٹ نکالا اور اسے زمین پر پھینک دیا پھرخود ہی جھک کر اس نوٹ کو اٹھایا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اس سے کہا‘ جناب آپ کے پیسے گر گئے ہیں‘ آپ یہ لے لیں۔اشک آلود آنکھوں سے اس شخص نے میرے والد کوحیران اور پریشانی کے عالم میں دیکھا پھر اپنے آپ کو سنبھالا اورکہا:شکریہ محترم!
جب وہ فیملی اندر داخل ہوگئی تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کرمجھے قطار سے باہر کھینچ لیا اور ہم سرکس کا شو دیکھے بغیر گھر واپس روانہ ہوگئے کیوں کہ میرے والد کے پاس بھی صرف وہی بیس ڈالر تھے جو انہوں نے اس شخص کو دے دیے۔ چارلی چپلن کہتا ہے اس دن سے مجھے اپنے والد پر فخر ہے‘وہ منظر میری زندگی کا سب سے خوب صورت شو تھا‘اس شو سے بھی زیادہ، جو ہم اس دن سرکس میں نہیں دیکھ سکے۔ اس کے بعد چارلی چپلن نے تاریخی الفاظ کہے‘ اس کا کہنا تھا ”میرا یہ یقین ہے کہ تربیت کا تعلق عملی نمونے سے ہے‘ محض کتابی نظریات سے نہیں“۔