ملائشیا دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے پچھلے پچیس برسوں میں زبردست ترقی کی۔ اس ترقی کا تمام تر سہرا ملائشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کے سر جاتا ہے اورمہاتیر نے یہ کارنامہ چینی زبان کی ایک چھوٹی سی حکایت سے سر انجام دیا تھا۔ مہاتیر جب ملائشیا کے وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت ملائشیا کی آبادی کا61فیصد ملائی مسلمانوں اور 32فیصد چائنیز پر مشتمل تھا۔اس وقت ملک کے تمام ری سورسز‘ تمام بڑی انڈسٹری‘ تجارت‘ کمپنیاں‘ منڈیاں اور بینکس چینیوں کے پاس تھے جبکہ ملائی مسلمان چھوٹی موٹی مزدوری کرتے تھے یا پھر کریانے کی دکانوں تک محدود تھے۔ اس معاشی ڈس بیلنس کی وجہ سے چینی باشندوں اور ملائی مسلمانوں کے درمیان فسادات ہوتے تھے۔ مہاتیر محمد نے اندازا لگایا کہ جب تک چائنیز اقلیت ملائی اکثریت کو وسائل میں حصہ نہیں دیتی اس وقت تک ملک آگے نہیں بڑھے گا چنانچہ مہاتیر محمد نے ملائشیا کے تمام بڑے چینی بزنس مینوں‘ تاجروں‘ صنعت کاروں اور بینکاروں کو جمع کیا اور انہیں چینی زبان کی ایک قدیم کہانی سنائی۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا چین کے ایک بادشاہ نے خواب میں دیکھا اس کے بیڈ روم کی چھت سے ایک لومڑی دم کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ بادشاہ نے شہر میں اعلان کر دیا جو شخص اس خواب کی تعبیر بتائے گا وہ اسے مالا مال کر دے گا۔ مختلف لوگ خواب کی تعبیر بتانے کیلئے نکلے۔
ان لوگوں میں ایک غریب اور ان پڑھ کسان بھی تھا۔ مہاتیر محمد نے چائنیز بزنس مینوں کو بتایا ”اس کسان کو راستے میں ایک سانپ ملا‘ سانپ نے اس سے یہ سودا کیا کہ وہ اسے خواب کی تعبیر بتائے گا اور اس کے بدلے میں بادشاہ کسان کو جو انعام دے گا وہ اس میں سے آدھا حصہ سانپ کو دے دے گا“کسان مان گیا‘ سانپ نے کسان کو بتایا ”تم بادشاہ سے کہنا خواب گاہ میں لومڑی لٹکنے کا مطلب ہے تمہاری سلطنت میں فریب‘ دھوکہ‘ غداری‘ بددیانتی اور رشوت ستانی عام ہے۔“ کسان بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتا دی۔ بادشاہ نے کسان کو انعام دے دیا۔ اتنا انعام دیکھ کر کسان کے دل میں لالچ آ گیا چنانچہ وہ سانپ کو اس کا حصہ دئیے بغیر گھر چلا گیا۔ مہاتیر نے چینی بزنس مینوں کو بتایا ”چند دن بعد بادشاہ نے خواب میں دیکھا اس کے بیڈ روم کی چھت سے ایک تلوار لٹک رہی ہے۔ بادشاہ نے یہ خواب دیکھتے ہی کسان کو طلب کر لیا۔کسان دوبارہ سانپ کے پاس گیا‘ اس سے معافی مانگی ‘اس کے ساتھ دوبارہ انعام شیئر کرنے کا وعدہ کیا اور خواب کی تعبیر پوچھی۔
سانپ نے بتایا ‘ بادشاہ سے کہو ”تمہارے دشمن تم پر حملہ کرنے والے ہیں‘ تم تیاری کر لو“ کسان اس بار بھی کام یاب لوٹااورراستے میں لالچ نے اسے دوبارہ تنگ کیا‘ وہ سانپ کے پاس گیا اوراس پر تلوار سے حملہ کر دیا۔ سانپ نے بھاگ کر بڑی مشکل سے جان بچائی“۔ مہاتیر رکے اور دوبارہ بولے ”بادشاہ نے چند دن بعد تیسرا خواب دیکھا‘ بادشاہ نے دیکھا اس بار اس کی چھت سے ذبحہ کی ہوئی بھیڑ لٹک رہی ہے۔ بادشاہ نے کسان کو طلب کر لیا۔ کسان تیسری بار سانپ کے پاس گیا‘اس سے گڑ گڑا کر معافی مانگی‘ سانپ اس بار بھی مان گیا اور اس نے کسان کو بتایا تم بادشاہ کو بتاؤ اب سلطنت پر اچھا وقت آنے والا ہے۔ اب ملک میں امن وامان ہو گا‘ لوگ مل کر رہیں گے اور ایک دوسرے کااحترام کریں گے“ کسان بادشاہ کے پاس گیا‘ تعبیر بتائی انعام لیا اور اس بار سیدھا سانپ کے پاس حاضر ہو گیا اور ساراانعام سانپ کے سامنے رکھ دیا۔ سانپ نے کسان کو پریشان دیکھا تو بولا ”تم شرمندہ نہ ہو‘ جب تم نے پہلی میرا حصہ مارا تھا تو اس وقت ملک میں مکر‘ فریب‘ چوری اور لالچ کادور تھا چنانچہ تم بھی لالچ میں آ گئے۔
دوسری بار ملک میں بدامنی‘ لاقانونیت اور جنگ کا ماحول تھا چنانچہ تم نے مجھ پر حملہ کر دیا اور تیسری باراب ملکی حالات ٹھیک ہو گئے ہیں چنانچہ تم میرا حصہ لے کر میرے پاس آ گئے“۔ سانپ نے کسان سے کہا ”ملکی حالات ہمیشہ لوگوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں چنانچہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں“۔ ناظرین یہ کہانی سنانے کے بعد مہاتیرمحمد نے چائنیز بزنس مینوں سے کہا ”ملائشیاپر بھی اچھا وقت آ گیا ہے چنانچہ میری درخواست ہے اب آپ بھی ملائی باشندوں کو ان کا شیئر دینا شروع کر دیں تا کہ ملک آگے بڑھے“۔ چائنیز بزنس مین مہاتیر کی کہانی کا مطلب سمجھ گئے اور انہوں نے اپنے اداروں کے دروازے ملائی باشندوں پر کھول دئیے چنانچہ ملائشیا ترقی اور خوشحالی کے گولڈن پریڈ میں داخل ہو گیا۔