خصوصی فیچرز

انسان کو اللہ سے کیا مانگنا چاہیے قسمت یا عقل


آسٹریا کے قدیم باشندوں کا کہناتھا ایک بار عقل اور قسمت کے درمیان یہ بحث ہو رہی تھی کہ ان دونوں میں اہم کون ہے۔ عقل کا کہنا تھا میں نہ ہوں توانسان کو اپنی ذات‘ اپنی صلاحیتوں اور اپنے پوٹینشل کاادراک نہیں ہوتا جبکہ قسمت کا کہنا تھا اگر میں کسی شخص کا ہاتھ نہ پکڑوں تو وہ قبر تک اپنے پوٹینشل‘ اپنی صلاحیتوں سے فائدنہ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بحث جاری تھی کہ دونوں نے سامنے دیکھا‘ سامنے کھیت میں بیس برس کا ایک نوجوان وینک ہل چلا رہا تھا۔ قسمت نے عقل سے کہا تم اس نوجوان کے پاس جاؤ اگر تم نے اس کو کامیاب کر دیا تو میں باقی زندگی تمہاری غلام بن کر گزار دوں گی اور اگر تم ناکام ہو گئی تو تم مجھے جہاں دیکھو گی تم وہاں سے رخصت ہو جاؤ گی ۔ عقل نے چیلنج قبول کر لیا‘ وہ نوجوان کے پاس گئی اور اس کے دماغ میں کود گئی۔وینک نے فوراً ہل چھوڑا‘اپناسامان باندھا اور ویانا شہر آ گیا۔ شہر پہنچ کر وہ آسٹریا کے کنگ کے مالیوں میں شامل ہو گیا۔ عقل نے اس کی رہنمائی کی لہٰذااس نے شاہی باغ کا سارا نقشہ بدل دیا‘ بادشاہ کو اس کے ہاتھ کی صفائی پسند آئی اور اس نے اسے اپنے ذاتی سٹاف میں شامل کر لیا۔ وہ عقل مند تھا چنانچہ وہ بادشاہ کو مختلف مشورے دینے لگا۔ بادشاہ کو یہ مشورے پسند آئے یوں وہ ترقی کرنے لگا۔ وہ ترقی کرتے کرتے بادشاہ کاخصوصی مشیر بن گیا۔


یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی عام شخص ترقی کرتا ہے تو اس کے خلاف حسد شروع ہو جاتا ہے۔ وینک کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بادشاہ کے وزیروں‘ مشیروں اور خادموں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ ایک دن اس نوجوان پر شہزادی کے ساتھ فری ہونے کا الزام لگا۔ یہ الزام ثابت ہوا اوربادشاہ نے اس کو موت کی سزا سنا دی۔ وینک نے عقل کی مدد سے اس سزا سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں یہاں تک کہ سزائے موت پر عملدرآمد کا وقت آ گیا۔ کنگ کے فوجیوں نے نوجوان کو ویانا شہر کے مرکزی چوک میں چبوترے پر لٹایا اور شاہی جلاد تلوار لے کر اس کے سر پر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت عقل اور قسمت ایک دوسرے کے قریب کھڑی تھیں۔ قسمت نے مسکرا کر عقل کی طرف دیکھا۔عقل نے بے بسی سے سر ہلایا اور اپنی ہار کااعلان کر دیا۔ اس کے بعد قسمت نے عقل سے پوچھا ”کیا اب میں ٹرائی کروں“ عقل نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ عقل وینک کے دماغ سے باہر آئی اور قسمت نے نوجوان پر اپنا سایہ کر دیا۔ ٹھیک اس لمحے جلاد نے تلوار چلائی‘ تلوار سلپ ہوئی اوروینک کی گردن پر لگنے کی بجائے چبوترے سے ٹکرائی اور دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ٹھیک اسی لمحے شہزادی کووینک پر ترس آ گیا اور اس نے نوجوان کی بے گناہی کی گواہی دے دی ۔ بادشاہ نے نوجوان کی جان بخشی‘ اسے گلے سے لگایا‘ اسے وزیراعظم بنایا اور شہزادی کے ساتھ اس کی شادی کر دی۔ آسٹریا کے لوگوں کا کہنا ہے وہ دن ہے اور یہ دن ہے عقل جہاں بھی قسمت کو دیکھتی ہے وہ ندامت سے سر جھکاتی ہے اور وہاں سے غائب ہو جاتی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ تمام خوش قسمت لوگ عقل سے پیدل ہوتے ہیں۔


عقل یا قسمت۔ ہمیں اللہ سے کیا مانگنا چاہئے۔ میرا خیال ہے ہمیں اللہ تعالیٰ سے خوش قسمتی کی دعا کرنی چاہئے کیونکہ عقل کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے لیکن خوش بختی‘ خوش قسمتی یا لک کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ آپ نے اکثر بڑے بڑے عالموں‘ بڑے عقل مندوں اور دانشوروں کو عام معمولی ذہنیت کے لوگوں کا ملازم یا مشیر دیکھا ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ عالموں کے پاس علم‘ عقل مندوں کے پاس عقل اور دانشوروں کے پاس دانش تو ہوتی ہے لیکن قسمت نہیں ہوتی جبکہ ان کے مالکان ان کے باسز کے پاس دانش‘ عقل اور علم نہیں ہوتا مگر قسمت ہوتی ہے۔ ۔