آپ نے دیسی یعنی پاکستانی اور بھارتی کھانوں میں سرسوں کے تیل کا استعمال ہوتے دیکھا ہوگا، جن میں سے کئی پکوان ایسے ہیں جن میں سرسوں کا تیل لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔آج بھی بہت سے گھرانوں میں اسے عام دستیاب ویجیٹیبل آئل سے زیادہ صحت بخش اور اس میں پکنے والے کھانوں کو ذائقہ دار سمجھا جاتا ہے۔تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ دیسی گھروں میں مقبول یہ تیل امریکا میں ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، اور وہاں سرسوں کے تیل میں کھانے پکانے پر پابندی عائد ہے۔
امریکا کے دیسی اسٹورز پر یہ تیل بآسانی دستیاب تو ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اس پر ہدایت بھی درج ہوتی ہے کہ اسے کھانا پکانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔اس کی وجہ ماہریں غذائیت یہ بتاتے ہیں کہ سرسوں کے تیل کو امریکا میں اس لیے منظور نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد کے لیے یورک ایسڈ کی اعلی سطح دل کے ممکنہ مسائل اور پھیپھڑوں اور جلد پر منفی اثرات سے منسلک ہے۔
یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے فیصلے کے پیچھے یہ کچھ بڑی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ماہر غذائیت اشون بہادری بتاتے ہیں کہ اگرچہ یورک ایسڈ کی تھوڑی مقدار محفوظ ہے لیکن طویل عرصے تک اس کی زیادہ مقدار نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ایروک ایسڈ سرسوں کے تیل میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک مونو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ ہے اور جانوروں پر کی گئی تحقیق میں ان کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
اگرچہ تحقیق میں اس کے ایک عام انسان خوراک می شامل مقدار سے زیادہ مقدار کا جائزہ لیا گیا تاہم انسانوں میں اسی طرح کے اثرات کے امکانات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم یہ تحقیق انسانی صحت پر یورک ایسڈ کے اثرات کی واضح تصویر پیش نہیں کرتی۔
چنانچہ ماہر غذائیت کہتے ہیں کہ کچھ تحقیق پر اندھا اعتبار کرنا ٹھیک نہیں کیوں کہ تحقیق کے معیار کو معاشی مفادات متاثر کرسکتے ہیں۔
اسی لیے امریکا میں دستیاب سروسوں کے تیل کو بہت سے گھرانے کھانا پکانے کے لیے بلا جھجھک استعمال کرتے ہیں۔