خصوصی فیچرز

انسانی تاریخ میں بجٹ کا تصور سب سے پہلے کس نے دیا


 دنیا کے ہر ملک میں ہر سال بجٹ پیش ہوتا ہے اور دنیا کے ہر ملک کی پارلیمنٹ اس بجٹ کی منظوری دیتی ہے لیکن شائد آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دنیا کو بجٹ کا یہ تصور مشہور مسلم مفکر امام غزالی نے دیا تھا‘ انہوں نے نیشا پور کے سلطان ملک شاہ کیلئے بجٹ کا سسٹم بنایا تھا اور یہ سسٹم بعدازاں سنٹرل ایشیا سے ترکی اور ترکی سے یورپ پہنچا تھا۔امام غزالی رحمة اللہ علیہ کا تعلق ایران کے صوبے خراسان سے تھا۔ وہ اپنے علم کی وجہ سے تیس سال کی عمرتک پوری دنیا میں مشہور ہو چکے تھے ۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے 55سال کی عمر پائی تھی ‘انہوں نے اس مختصر سی عمر میں 35کتابیں لکھی تھیں۔ وہ اسلامی دنیا کے پہلے عالم تھے جنہوں نے ارسطو‘ افلاطون اور بقراط کے خیالات کو اسلامی دنیا میں متعارف کرایا تھا۔ علم کی دو قسمیں ہیں۔ دینی علم اوردنیاوی علم علم کی اس تقسیم کا تصور بھی امام غزالی رحمة اللہ نے دیا تھا اور ریاست کے بغیر انسان کیلئے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہوتا۔ معاشرے کے اس تصور کے بانی بھی امام غزالی ہیں۔ نیشا پور کے سلطان نے ایک دن امام غزالی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا ”کیا میں تاریخ ساز بادشاہ بن سکتا ہوں“ امام غزالی رحمة اللہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔ ملک شاہ نے پوچھا ”کیا میں اچھا نہیں ہوں‘ میں نیک‘ عاجز اور ہمدرد نہیں ہوں“

امام نے فرمایا ”بے شک آپ ہیں“ ملک شاہ نے پوچھا ”پھر میں بڑا بادشاہ کیوں نہیں بن سکتا؟ “ امام غزالی رحمة اللہ علیہ مسکرائے اور بادشاہ سے کہا ”بنی اسرائیل کی کسی بستی میں ایک پرہیز گار شخص رہتا تھا‘ اس بستی میں ایک شیطانی درخت تھا اور لوگ شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس درخت کی پرستش کرتے تھے۔ اس نیک شخص کو اس درخت کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے آری لی اور اس درخت کو کاٹنے کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا‘ راستے میں اس کی ملاقات شیطان کے ساتھ ہو گئی۔ شیطان نے اس کو چیلنج کیا‘ تم میرے ساتھ کشتی لڑ لو ‘ تم جیت گئے تو درخت کاٹ دینا‘ میں ہار گیا تو تم واپس لوٹ جانا۔ نیک شخص نے چیلنج قبول کرلیا۔کشتی شروع ہوئی تو نیک شخص شیطان کو نیچے گرا کر اس کی چھاتی پر بیٹھ گیا۔ شیطان نے اس سے معافی مانگ لی‘ وہ شخص شیطان کی چھاتی سے اٹھ گیا“امام غزالی نے ملک شاہ کو بتایا ”بادشاہ سلامت شیطان اٹھا اور اس نے اس نیک شخص کو دوسری بار کشتی کا چیلنج دے دیا‘ نیک آدمی نے دوسری بار بھی شیطان کو ہرا دیا۔ شیطان نے اس بار بھی معافی مانگ لی لیکن اٹھتے ہی تیسری بار چینلج کر دیا۔ نیک شخص نے اس بار بھی شیطان کو نیچے ۔گرا دیا۔ بہرحال قصہ مختصر اس مقابلے کے آخر میں شیطان نے نیک شخص کو ایک ڈیل آفر کی۔ اس نے اس سے کہا ”اگر تم درخت کو کاٹنے سے باز آ جاؤ تو میں تمہارے تکیے کے نیچے روزانہ دو دینار رکھ دیا کروں گا‘ نیک شخص نے شیطان کی یہ آفر قبول کر لی“۔ امام غزالی نے سلطان کو بتایا ”شیطان چند دن تک اس شخص کے سرہانے کے نیچے دینار رکھتا رہا لیکن پھر اس نے یہ سلسلہ بندکر دیا جس کے بعد اس نیک شخص نے دوبارہ آری لی اور درخت کاٹنے کیلئے چل پڑا۔ راستے میں اسے دوبارہ شیطان ملا اور اس نے اس بار بھی اسے کشتی کا چیلنج کر دیا۔ دونوں کی لڑائی شروع ہوئی لیکن اس بار شیطان نے نیک شخص کو نیچے گرا لیا۔ وہ نیک شخص بڑا حیران ہوا اوراس نے شیطان سے پوچھا ”میں پچھلی بار بھی اسی درخت کو کاٹنے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور میں نے تمہیں تین بار نیچے گرایا تھا لیکن آج تم نے مجھے چند سیکنڈ میں گرا دیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟“ شیطان نے قہقہہ لگایا اور بولا ”پچھلی بار تم اللہ کی رضا کیلئے درخت کاٹنے نکلے تھے لیکن اس بار تم اللہ کی رضا کی بجائے دو دیناروں کیلئے درخت کاٹنا چاہ رہے ہو لہٰذا تم کمزور ہو گئے ہو۔


یہ واقعہ سنانے کے بعدامام غزالی نے ملک شاہ سے کہا ”بادشاہ سلامت اقتدار دو قسم کے ہوتے ہیں‘ اللہ کی رضا کیلئے اقتدار اور ذات کی رضا کیلئے اقتدار جو حکمران اللہ کی رضا اور اس کے بندوں کی خدمت کیلئے اقتدار میں آتے ہیں اللہ انہیں ہمت بھی دیتا ہے‘ جرات بھی‘ برکت بھی اور عزت بھی لہٰذا یہ لوگ تاریخ ساز بادشاہ بنتے ہیں لیکن جو لوگ صرف اپنی ذات کی تسکین کیلئے حکومت کرتے ہیں وہ لوگ کمزور بھی ہوتے ہیں‘ بے ہمت بھی اور بزدل بھی“۔ امام غزالی نے فرمایا ”بادشاہ سلامت اقتدار برائے اقتدار کے حامل بادشاہوں کو اقتدار تو مل جاتا ہے لیکن عزت نہیں ملتی۔
امام غزالی کے انتقال کے واقعے کی طرف آتے ہیں۔ امام غزالی انتقال کے دن فجر کی نماز کیلئے اٹھے‘ وضو کیا‘ نماز پڑھی‘گھر والوں سے کفن منگوایا‘ کفن کو آنکھوں سے لگایا‘ دائیں جانب رکھا‘مسکرا کر گھر والوں سے مخاطب ہوئے ”آقا کا حکم ہے‘ سر آنکھوں پر“ پاؤں پھیلائے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی اورامام غزالی کی روح نکل گئی۔ امام غزالی نے آخری عمر میں اپنی زندگی کی حکمت عملی کے بارے میں فرمایا تھا انسان اقتدار سے محبت کرتا ہو یا مال سے وہ اسے چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے لہٰذا میں نے سوچا ‘ میں کیوں نہ ایسے کام کروں جو قبر میں بھی ساتھ جائیں چنانچہ میں نے نیکیوں سے محبت شروع کر دی۔