ہیلتھ ٹپس

فالج اور ہارٹ اٹیک سے بچنا چاہتے ہیں تو ان غذاؤں کا اپنی روٹین بنالیں


دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات امراض قلب کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔دل کی صحت سے جڑے مسائل بشمول ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کی رفتار میں بے ترتیبی یا اس عضو کے مختلف حصوں کو پہنچنے والے ہر قسم کے نقصان کے لیے امراض قلب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور تمباکو نوشی کو دل کے متعدد امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر تصور کیا جاتا ہے مگر طرز زندگی بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتا ہے، خاص طور پر غذائی عادات۔آپ کا غذائی انتخاب بلڈ پریشر، خون میں چکنائی، کولیسٹرول اور ورم پر اثرانداز ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان غذاؤں کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو دل کو صحت مند بنانے اور امراض قلب سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

سبز پتوں والی سبزیاں

سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک اور ساگ میں وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ سبزیاں وٹامن کے کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

یہ وٹامن شریانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور بلڈ کلاٹ کے عمل کو درست رکھتا ہے۔ان سبزیوں میں نائٹریٹ جیسا جز بھی موجود ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ شریانوں کو سکڑنے سے بچاتا ہے جبکہ شریانوں میں موجود خلیات کے افعال بہتر ہوتے ہیں۔

بیریز

اسٹرابیریز، بلیو بیریز اور بیریز کی دیگر اقسام میں ان غذائی اجزا کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو دل کی صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔بیریز میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے تکسیدی تناؤ اور ورم سے تحفظ ملتا ہے۔تکسیدی تناؤ اور ورم سے امراض قلب، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

مچھلی کا گوشت اور مچھلی کا تیل

مچھلی کے گوشت میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ فیٹی ایسڈز دل کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ان فیٹی ایسڈز سے امراض قلب سے بچنے میں مدد ملتی ہے جبکہ فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق مچھلی کھانے سے طویل المعیاد بنیادوں پر کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر جیسے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔

اگر آپ کو مچھلی کھانا پسند نہیں تو مچھلی کے تیل کے کیپسول کے استعمال سے بھی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کا حصول ممکن ہے۔مچھلی کے تیل کے استعمال سے بھی دل کی صحت بہتر ہو سکتی ہے۔

اخروٹ

اخروٹ بھی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کے حصول کا اچھا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔یہ غذائی جز ورم کش ہوتا ہے جس سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔جاما انٹرنل میڈیسن میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ خون میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار بڑھنے سے ہارٹ اٹیک سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اسی طرح اخروٹ کھانے سے ورم کم ہوتا ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

بیج اور دالیں

چنے، دالیں اور بیجوں جیسے لوبیا میں نشاستہ کی ایسی قسم موجود ہوتی ہے جو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی اور معدے میں موجود صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی غذا بنتی ہے۔متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ دالوں اور بیجوں کے استعمال سے امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کی روک تھام ہوتی ہے۔ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیجوں کے استعمال سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے جبکہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں کرنا ممکن ہوتا ہے، جس سے امراض قلب سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ڈارک چاکلیٹ

ڈارک چاکلیٹ میں مختلف اینٹی آکسائیڈنٹس جیسے فلیونوئڈز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جن سے دل کی صحت بہتر ہوتی ہے۔اعتدال میں رہ کر چاکلیٹ کھانے سے دل کی شریانوں کے امراض، فالج اور ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ٹماٹر

ٹماٹروں میں لائیکوپین نامی اینٹی آکسائیڈنٹ کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے۔اینٹی آکسائیڈنٹس سے تکسیدی تناؤ اور ورم کی روک تھام ہوتی ہے۔تکسیدی تناؤ اور ورم جیسے عناصر امراض قلب کا شکار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔خون میں لائیکوپین کی مقدار میں کمی سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔ٹماٹروں میں یہ غذائی جز بہت زیادہ مقدار میں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر کھانے سے بلڈ پریشر مستحکم ہوتا ہے، خون میں چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ دل کو فائدہ ہوتا ہے۔

درحقیقت کچے ٹماٹر کھانے سے بھی بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

بادام

بادام ورم کش اور اینٹی آکسائیڈنٹس خصوصیات سے لیس ہوتے ہیں جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔بادام کھانے سے بلڈ پریشر کی سطح میں کمی آتی ہے جس سے بھی امراض قلب سے مزید تحفظ ملتا ہے۔باداموں میں دل کے لیے مفید چکنائی اور فائبر موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گری دل کی صحت کے لیے مفید قرار دی جاتی ہے۔

لہسن

لہسن سے بھی دل کو صحت مند رکھنے میں مدد ملتی ہے۔لہسن میں ایلی سن نامی جز ہوتا ہے جو دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ لہسن کے سپلیمنٹس کے استعمال سے بلڈ پریشر کی سطح میں کمی آتی ہے۔اسی طرح لہسن کے استعمال سے بلڈ کلاٹس بننے اور فالج کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

زیتون کا تیل

زیتون کا تیل اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جس سے جسمانی ورم میں کمی آتی ہے اور مختلف دائمی امراض کا خطرہ گھٹ جاتا ہے۔اس میں موجود فیٹی ایسڈز کو دل کی صحت کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیتون کے تیل کے استعمال سے امراض قلب کا خطرہ 35 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

سبز چائے

سبز چائے کو صحت کے لیے بہت زیادہ مفید قرار دیا جاتا ہے اور اس کو پینے سے جسمانی چربی گھلانے، انسولین کی حساسیت بڑھنے اور کینسر سے تحفظ جیسے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ سبز چائے میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس خلیات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، ورم کم ہوتا ہے جبکہ دل کو مختلف امراض سے تحفظ ملتا ہے۔

متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ سبز چائے کے استعمال سے لپٹن نامی ہارمون کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یہ ہارمون کھانے کی خواہش کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتا ہے۔

شکر قندی

شکر قندی میں فائبر، وٹامن اے اور لائیکو پین جیسے اجزا موجود ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ شکر قندی میں پوٹاشیم جیسا جز بھی موجود ہوتا ہے۔پوٹاشیم دل کی شریانوں کو صحت مند رکھنے کے لیے اہم جز ہے جس سے بلڈ پریشر کی سطح مستحکم رکھنے میں مدد ملتی ہے اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

مالٹے

مالٹے فائبر اور پوٹاشیم کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں اور یہ دونوں غذائی اجزا دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائبر سے بھرپور غذا کے استعمال سے امراض قلب سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اسی طرح مالٹوں میں موجود پوٹاشیم سے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد ملتی ہے جس سے امراض قلب بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

دہی

تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ دہی یا دودھ میں موجود چکنائی سے صحت کے لیے مفید کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جس سے دل کی صحت کو تحفظ ملتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق دہی کھانے کی عادت سے امراض قلب سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔دہی میں موجود پوٹاشیم سے بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے اور ہائی بلڈ پریشر امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والا ایک اہم ترین عنصر ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔