پاکستان بننے سے پہلے دہلی میں ایک مسلمان فوجی افسر قائداعظم محمد علی جناح سے ملنے گیا‘ یہ افسر برٹش آرمی میں میجر تھا اور یہ یونیفارم میں قائداعظم کی رہائش گاہ پر چلا گیا تھا۔ قائداعظم اس سے ملے ضرور لیکن انہوں نے افسر سے کہا ”نوجوان آپ فوج کے سینئر افسر ہیں‘ آپ ہی اگر خود ڈسپلن کی پابندی نہیں کریں گے تو آپ اپنے جوانوں سے اس کی کیسے توقع رکھیں گے“۔
فوجی افسر نے عاجزی سے عرض کیا ”جناب میں آپ کی بات نہیں سمجھا“ قائداعظم نے فرمایا ”برٹش آرمی کے رولز کے مطابق آپ یونیفارم میں کسی سویلین سے ملاقات نہیں کر سکتے جبکہ آپ یونیفارم میں میرے پاس تشریف لے آئے ہیں۔ مجھے ڈسپلن کی یہ خلاف ورزی اچھی نہیں لگی“ فوجی افسر نے معذرت کی اور آئندہ رولز کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ یہ افسر دوسری بار سویلین ڈریس میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملے‘ یہ قیام پاکستان سے چند ماہ پہلے کا زمانہ تھا اور برٹش آرمی میں چند ایسے اقدامات کیے جا رہے تھے جن کا بعدازاں ہندوستان کے مسلمانوں اور پاکستان کو نقصان ہونا تھا۔ یہ افسر قائداعظم کو ان اقدامات کے بارے میں اطلاع دینا چاہتا تھا‘
ابھی نوجوان افسر نے گفتگو کا آغاز ہی کیا تھا کہ قائداعظم نے اسے روک دیا اور فرمایا ”آپ اس بار ڈسپلن کے ساتھ ساتھ اپنے حلف کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں‘ آپ نے فوج میں شامل ہوتے وقت یہ حلف اٹھایا تھا کہ آپ فوج کی کوئی انفارمیشن کسی متعلقہ شخص کو نہیں دیں گے‘ میں آپ کو یہ خلاف ورزی نہیں کرنے دوں گا‘ میں آپ کی بات نہیں سنوں گا“ اس فوجی افسر نے واپسی پر اپنے ہندو ساتھیوں کو یہ واقعہ سنایا تو وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے اسے بتایا ہم جب گاندھی جی اور نہرو سے ملتے ہیں تو وہ ہم سے کرید کرید کر فوج کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔