صحت

رودنتی (روردنتی) جڑی بوٹی کے خواص اور فوائد


رودنتی ذیابیطس، السر، دمہ، اینتھلمینٹک، معدہ، ٹانک اور افروڈیسیاک مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، خون کو افزودہ کرتا ہے، اور قبض، جذام، اور پیشاب کے اخراج میں مفید ہے۔

مختلف نام

ہندی: رودرونتی

سنسکرت: رودنتی،سنجیونی

بنگالی: رورادنتی

گجراتی: پلیو

مرہٹی: رودنتی

 انگریزی میں کریسا سری ٹیکا  کے نام سے پکارتے ہیں۔

شناخت

یہ دوا رودنتی کے نام سے موسوم ہے، تحقیقات اور تجربات سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس کے مطابق یہ ایک درمیانہ قد کی خورد اور بے قاعدہ پھیلنے والی جھاڑی ہے۔ اس سے پھل آتے ہیں۔ جو انڈے کی طرح گول ہوتے ہیں اور پکنے پر ان کا رنگ ہرا ہو جاتا ہے۔ رودنتی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر کئی دھوکے باز لوگ اس میں بیل گری ملا دیتے ہیں۔ اس لیے خریدتے وقت خاص دھیان رکھا جائے۔

یہ ایک جنگلی پھل ہے۔ اس کی جھاڑی پندرہ سے اٹھارہ فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے نئے پتے جب نکلتے ہیں۔ تو ان کا رنگ تانبے کی طرح ہوتا ہے۔ پکنے پر چمک دار ہرے رنگ کے ہو جاتے ہیں، ان کی ڈنڈی آدھ سے ایک انچ لمبی ہوتی ہے۔ اس کو جو پھل لگتے ہیں، وہ انڈے کی طرح گول ہوتے ہیں۔ بڑے پھل چھوٹے انار کے برابر ہوتے ہیں۔ کچے پھلوں کا رنگ پتوں کی طرح ہرا ہوتا ہے۔ پکنے پر بھی ان کا رنگ ہرا ہی رہتا ہے۔

اس کے چھوٹے چھوٹے پھلوں کو توڑ کر سکھا لیا جاتا ہے۔ تو رنگ کالا ہو جاتا ہے، مگر بڑے بڑے موٹے پھل سکھانے پر نسواری رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ ان کا چھلکا سخت ہوتا ہے اور اندر سے ٹھوس ہوتا ہے۔ ان پھلوں کو کاٹنے سے اندر سے میٹھی میٹھی خوشبو نکلتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پھلوں کو کاٹنے سے ان کا گودا ہلکا لالی لیے ہوتا ہے، مگر سالم پھلوں کو توڑ کر چار چھ دن سکھانے کے بعد ہلکا گیرو رنگ کا نکلتا ہے۔

اسے مختلف صورتوں میں بذریعہ تصاویری قدرتی حالت میں دکھانے کی کوشش ڈاکٹر مہدی حسن نے کی ہے۔ اس کی چھاڑی کی پوری تصویر بھی قدرتی حالت میں پہچان کے لیے دی گئی۔ جس سے ناظرین فائدہ اٹھائیں گے۔ اس کے پھل ماہ اپریل میں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ پھلوں کے سفوف کی خوراک چھ رتی سے اڑتالیس رتی تک پانی یا دودھ کے ساتھ دے سکتے ہیں۔

پیدا ہونے کی جگہ

اس کی جھاڑیاں پچھمی گھاٹ ، کونکن اور دکھشنی کنارا، کیرل اور لنکا کے گھنے جنگلوں جو سمندری جگہ سے دو سے اڑھائی ہزار فٹ کی اونچائی تک ہوتے ہیں۔ خود بخود پیدا ہوتی ہے، یہ میسور میں شراوتی ندی کے کنارے میں گھنے جنگلوں میں ضلع کاروار اور منگور کے گھاٹوں میں بہت زیادہ مل جاتی ہے یہ ککھشن بھارت میں سری، کھمبا، سلاسا اور کھنڈالا وغیرہ چاروں طرف کے جنگلوں میں بہت پائی جاتی ہے۔

فوائد

پھوڑے، پھنسنیوں، زخموں، چوٹ، کیل، مہاسے اور گرنتھیوں میں سوجن دور کرنے کے لیے یہ کافی عرصہ سے استعمال ہوتی ہے۔ یہ دق کے جراثیم (بیسی لس ٹیوبر کیلوسسس) کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ ان کی حرکت کو کم کرتی ہے اور ان کی بڑھوتری میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ ٹاکسیمیا  کو کم کرتی ہے۔ اس کے استعمال سے بخار کم ہو جاتا ہے۔ کھانسی ختم ہو جاتی ہے، بھوک بڑھ جاتی ہے۔ وزن بڑھ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ تپ دق کے مریضوں کے علاوہ اس سے نہ تو دیگر مریضوں کے جسم یا وزن میں بڑھوتری ہوتی ہے اور نہ بھوک بڑھتی ہے، پھیپھڑوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور ان کا نشان تک باقی نہیں رہتا۔ مریض کی عام جسمانی حالت بہت اچھی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے میں ایک نئی زندگی محسوس کرتا ہے۔ اسے نیند بھی خوب آتی ہے۔

خاص استعمال

شری ڈاکٹر جی، کرشن مورتی جو ڈاکٹر بالا بھائی نانا وتی ہسپتال بمبئی میں دیہی ادویات کے کلینکل ریسرچ سنٹر کے پریزیڈنٹ ہیں اور جن کو چوتھائی شتابدی سے بھی زیادہ عرصہ سے پھیپھڑوں کی دق کے علاج کرنے میں خاص تجربہ ہے، انہوں نے ناناوتی ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک میٹنگ میں ٹریٹمنٹ آف فلومزی ٹیوبر کیلوسس و رودنتی اینڈ انڈجینس انڈین ڈرگ یعنی پھیپھڑوں کی دق کا رودنتی و دیسی ہندوستانی ادویات کے ذریعے علاج نام کا ایک لیکھ پڑھا تھا۔ جو کہ مارچ 1957 کے کرنٹ میڈیکل پریکٹس میں چھپ چکا ہے، اس میں لکھا ہے کہ جولائی 1953 میں ایک دو سال کا بچہ میرے پاس لایا گیا، وہ ٹاکسیمیا اور عام کمزوری میں تھا۔ اس کی جانچ کرانے پر اسے پھیپھڑوں کی دق پائی گئی اور گردن کے دونوں طرف غدود سوجے ہوئے تھے غدود کا کٹھور پن سخت تھا اور اس میں پیپ پڑی رہی تھی۔ بغل کا ٹمپریچر 101 درجہ فارن ہیٹ تھا۔ جب کہ بچہ صرف تین ماہ ہی کا تھا۔ سٹریٹو مائی سین، آئی، این، ایس یعنی آئی جی نیکس ، اور پی، اے، ایس یعنی پاس کی ضرورت کے مطابق خوراک سے اس کا علاج پہلے کیا جا چکا تھا، مگر اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں ہوا تھا۔ بلکہ بچے کی حالت پہلے سے بھی بگڑ تی جا رہی تھی۔

یہ پہلا موقع تھا۔ جب میں نے بڑی رودنتی کا پھل کا سفوف استعمال کیا، جو مجھے ایک واقف نے دیا تھا اور پیپ بڑ رہی جلد کے لیے فائدہ مند تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس مریض کو سفوف صرف اس امید پر دیا گیا تھا کہ صرف مرض کی چھوت دور ہو جائے گی۔ ایک ہفتہ کے بعد پیپ پڑ رہی خراب جلد تندرست ہو گئی اور پیپ کا بننا ختم ہو گیا۔ مریض بہت اچھی حالت میں تھا۔ اور اس کی بھوک بڑھ گئی تھی۔ میں نے اور چھ ہفتہ تک علاج جاری رکھا۔ اس کے غدود کی بڑھوتری بہت جلد ختم ہو گئی۔ لگ بھگ تین ماہ کے علاج میں کوئی غدود بھی بڑھی ہوئی نہ تھی اور بچہ کا وزن پانچ پونڈ بڑھ گیا تھا۔

ان تجربات نے مجھے غور کرنے پر مجبور کیا کہ بڑی رودنتی سٹریٹو کوکائی اور اٹفلو کوکائی کی چھوت سے ہونے والے امراض کے لیے زود اثر ہے۔

میں نے ایک 32 سال کے مریض کے اے، ڈی کو چھانٹا جو کہ دق کے مرض سے تندرست ہوا تھا۔ اس کے دائیں پھیپھڑے کے اوپر کے حصہ میں دو غاریں  تھیں۔ اس کا دائیں پھیپھڑہ بالکل ٹھیک تھا۔ مریض کو بڑی رودنتی کا سفوف ہر روز بارہ گرین (چھ رتی) کی خوراک میں چار خوراکوں میں تقسیم کر کے دیا گیا تھا۔ چونکہ میں اس دوا کے استعمال اور مضر اثرات کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا تھا۔ اس لیے میں نے مریض کی دیکھ بھال بہت احتیاط سے کی۔ ہر ہفتہ اس کی چھاتی کی سکرین ہو جاتی تھی۔ تیسرے ہفتے مریض کی عام حالت میں سدھار دکھائی دیا اور پانچویں ہفتے میں ایکسرے سے معلوم ہوا کہ ان دو غاروں میں سے اب تک ایک بھر چکی تھی۔ اب مریض کے نتیجہ نے مجھے بڑی رودنتی کے متعلق اپنے تجربات کو جاری رکھنے پر مجبور کر دیا اور میں نے پھیپھڑوں کی دق کے کچھ اور زیادہ مریضوں کو اس کے ذریعے علاج کرنے کے لیے چنا، موجودہ حالات میں بہت سے مریضوں پر بڑی رودنتی کے ذریعے کیے گئے کلینیکل تجربات کا ہی نتیجہ ہے۔

طریقہ علاج

بڑی رودنتی کے ذریعے علاج کرنے کے لیے زیادہ تکلیف والے مریض ڈاکٹر بالا بھائی نانا وتی ہسپتال سے چنے گئے تھے، مریضوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی اور بعد میں ان کو ہلکا کام کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس انوسندھان کی شروع کی حالت میں تھوک کی جانچ ای، ایس، آر نہیں کیے گئے تھے۔ اوپر بتائے گئے مریض تین قسموں میں بانٹے گئے تھے۔

  • ایک وہ جن کا علاج پہلے انٹی بایوٹک اور کیمو تھراپیوٹک ادویہ سٹرپٹو مائی سین۔ آئی، این، ایچ، اور پی، اے، ایس کے ذریعے کیا جا چکا تھا۔ میں نے خاص طور پر وہ مریض چنے جو دو سو گرام سے زیادہ سٹرپٹومائی سین لے چکے تھے۔
  • وہ مریض جن میں ریشے دار پنیری حالت میں تھے۔
  • وہ مریض جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے بیمار تھے۔ چونکہ کچھ مریضوں میں بلغم کا نکلنا نہیں تھا۔ اس لیے بلغم کی جانچ سب مریضوں میں عملی طور پر نہیں کی۔ اس کی صحت کے بارے میں رپورٹ، وزن بڑھنے، بھوک بڑھنے اور ایکسرے پر منحصر تھی۔

اس انوسندھان میں شروع رودنتی کی دو ٹکیاں (ہر ایک چھ گرین سفوف کی بنی ہوئی) دن میں دو بار دی جاتی تھیں۔ زیادہ تجربہ کرنے پر میں نے ہر روز چھ چھ گرین کی تین برابر خوراکیں بہت فائدہ مند پائیں۔ تو بھی بعد میں، میں نے ہر روز 48 گرین کی چار برابر خوراکیں (دو دو گرین کی ٹکیوں کی چار خوراکیں) بہت ہی زود اثر پائی ہیں۔ یہ بیان کر دینا مناسب ہے، کہ کچھ مریض جو ہر روز گرین بڑی رودنتی سفوف چار بار کر کے لیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کسی تکلیف کو ظاہر نہیں کیا ہے۔

چارپائی پر آرام کرنے کی منظوری تب دی جاتی تھی۔ جب تیز بخار اور ٹاکسیمیا ہوتا تھا۔ تو بھی آرام مکمل نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ مریضوں کو اپنے گھروں میں ہر روز تھوڑا چلنے کی اجازت تھی۔ زیادہ پوٹین والی خوراک تجویز کی جاتی تھی۔ مگر بہت سے مریض نہایت غریب تھے۔ جس سے وہ اس تجویز کا پالن سختی سے نہیں کر سکتے تھے۔

جہاں تک ممکن تھا، بڑی رودنتی کے علاوہ اور کوئی دیگر دوا نہیں دی گئی۔ کچھ مریضوں کو زیادہ خون کی کمی کی وجہ سے رودنتی کشتہ فولاد کے ساتھ دی گئی تھی۔ اب تک کل 97 مریضوں کا علاج بڑی رودنتی کے ذریعہ کیا جا چکا ہے۔ 155 اور 42 عورتیں ، مریضوں کی عمریں مندرجہ ذیل تھیں:

1۔ بیس سال سے کم عمر کے  11

2۔ بیس اور تیس سال کے درمیان میں 52

3۔ تیس اور چالیس سال کے درمیان  25

4۔ چالیس سال سے زیادہ عمر کے 9

نتیجہ

مریضوں میں سب سے کم عمر کا مریض 9سال کا تھا۔ اور سب سے بڑی عمر کا مریض 65 سال کا تھا۔ مریض مختلف کاروباری اشخاص میں سے تھے۔ مگر زیادہ تر بہت غریب تھے، (زیادہ مالی حالت کے8، درمیانی حالت کے 32 اور غریب حالت کے 26)

97 مریضوں میں 71 مریضوں کا تھیرائپوٹک یا انٹی بایوٹک ادویات اوسٹرپٹومائی سین، آرا، این، ایچ، اور پی، اے، ایس کا استعمال کرایا جا چکا تھا، اور وہ مریضوں کے پیٹ میں بھرا چکے تھے۔

میرے اس طریقہ علاج کا واسط عرصہ چار ماہ کا تھا۔ علاج کا کم سے کم ایک عرصہ ایک ماہ کا تھا اور زیادہ سے زیادہ عرصہ ایک سال کا تھا۔

نتیجہ

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے نتیجہ وزن کے بڑھنے، بھوک لگنے اور ایکسرے میں سدھار ہونے سے کیا جاتا ہے۔ سدھار کی قسمیں ٹھہرائی گئی تھیں۔ یعنی بہت اچھی، درمیانہ اچھی، کم اچھی، اور بغیر فائدہ کے۔

بہت اچھی 37، اچھی درمیانہ 41، کم اچھی 13، بغیر فائدہ کے 17، (ان میں سے دو کی موت ہو گئی تھی)۔

عام طور پر دو ہفتوں کے اندر اندر بھوک میں بڑھوتری ہو گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مریض زیادہ خوراک کھانے والے ہو گئے تھے، مگر پھر بھی بدہضمی سے بیمار نہیں ہونے پائے تھے۔

اگر بخار بڑھا ہوا تھا تو دو ہفتہ کے اندر اندر نارمل ہو جاتا تھا۔

وزن میں حیران کن بڑھوتری ہوئی تھی۔ اوسطاً زیادہ سے زیادہ 14 سے 15 پونڈ۔

ڈاکٹر جی، کرشنا مورتی نے اپنے 97 مریضوں میں سے جن دس مریضوں کے سلسلہ میں تصویری کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اس کے معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استعمال سے خاص طور پر وزن بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ دوسرے مریض کا وزن چار ہفتہ میں 71 پونڈ سے 94 پونڈ ہو گیا تھا۔ تیسرے مریض کا وزن چار ماہ میں 115 پونڈ سے 150 پونڈ بڑھ گیا۔

اس کے علاوہ صحت حاصل کرنے کے چار سال بعد جب ان کا ایکسرے لیا گیا۔ جبکہ انہوں نے بڑی رودنتی کا استعمال چھوڑ دیا تھا۔ تو بھی ان کا پھیپھڑا دق کے اثر سے بالکل محروم تھا۔

پانچواں مریض 24 سال کا ایک لڑکا تھا۔ جس کو دو ہفتہ میں بخار جاتا رہا۔ تیزی سے اس کی بھوک بڑھ گئی اور اس کی عام جسمانی حالت بہت اچھی ہو گئی۔ ساڑھے چار ماہ میں وہ بالکل ٹھیک ہو گیا۔ اس کا وزن 110 پونڈ سے 123 پونڈ ہو گیا۔

چھٹے مریض کا وزن 86 پونڈ ہو گیا، یعنی 28 پونڈ بڑھ گیا تھا اور دسویں کا وزن 82 پونڈ سے 110 پونڈ ہ وگیا۔

ٹاکسیمیا میں بھی سدھار ہو جاتا تھا۔ اس کی جانچ مریض کی عام حالت اور ایکسرے سے کی جاتی تھی۔

اکٹھا ہوا سیال دو تین ماہ میں سوکھ  جاتا معلوم پڑتا ہے۔

یہ دوا کوٹروں کے تناؤ کو بند کرنے کے لیے مفید معلوم ہو چکی ہے۔

ان معائنوں سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ دوائی بیسی لائی کے چھوت پھیلانے کی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے۔ (کرنٹ میڈیکل پریکٹس)

رودنتی پر دیگر تجربات

خان پور کے ایک ساہو کار کی پتنی لگاتار دو سال سے ٹی، بی (دق) سے بیمار تھی۔ جس کا ایلوپیتھک طریقہ علاج کیا جا چکا تھا لیکن آرام نہ آیا اور مریضہ کمزور ہوتی گئی۔ خشک کھانسی، چھاتی میں درد، بخار، خون کی کمی، ایام بند اور کمزوری حد سے زیادہ تھی، جسم ہڈیوں کا پنجرہ تھا۔ میں نے مندرجہ ذیل ادویات استعمال کرائیں:

سب سے پہلے بڑی رودنتی پھل اور بانسہ کے پتے کا سفوف برابر میں ملا کر تین تین ماشہ کی تین خوراک ہر روز گائے کے گرم دودھ سے ایک ماہ تک دی۔ جس سے مرضہ کے سانس اور کھانسی میں کافی فائدہ ہوا، جس سے ان سب کا آیوروید و یونانی پر وشواش بڑھا۔ اس کے بعد دوائی میں مندرجہ ذیل تبدیلی کی گئی، مندرجہ بالا سفوف میں سورن بسنت مالتی رس ایک ایک خوراک ملا دی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد مریضہ میں طاقت آنے لگی اور تندرست ہو گئی۔

دیگر

ایک اور مریضہ کے پستانوں میں گانٹھیں پیدا ہوا کرتی تھیں، اس وجہ سے مریضہ کے پستانوں پر بہت سوجن آتی تھی اور درد ہوتا، بخار بڑھنا وغیرہ علامات تھیں، کچھ دوا لینے سے آرام، پھر وہی پہلے والی حالت ہو جاتی تھی۔

میں نے بڑی رودنتی پھل کا چورن ڈیڑھ ماشہ اور ڈیڑھ ماشہ تازہ بانسہ کے خشک پتوں کا سفوف دودھ کے ساتھ دن میں تین بار کچھ دن تک استعمال کرایا۔ اس مریضہ کے پستانوں میں پھر کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔

میرے تجربہ میں بڑی رودنتی پھل کے ساتھ بانسہ کے تازہ خشک پتے اور سورج بسنت مالتی کا دینا زیادہ فائدہ مند ہے۔ (وئید اے ڈے کرنپشن پورہ)

دیگر

سفوف رودنتی دس تولہ، سفوف چھلکا جڑ چھوٹا چندرا پانچ تولہ، ہلدی خام (لمبی و پتلی گانٹھوں  والی) پانچ تولہ، آک کا دودھ چھ ماشہ، سب کو ملا لیں۔ خوراک تین سے آٹھ گرین دن میں دو سے تین بار حسب برداشت کھانا کھانے کے بعد استعمال کریں۔

نوٹ: اکیلی سفوف روؤدنتی دس گرین یا پانچ گرین کی ہر خوراک کے ساتھ یا علیحدہ ایک رتی سورن بسنت مالتی رس شامل کر دیں تو بہت جلد فائدہ حاصل ہوتا ہے۔