صحت

صدیوں سے حکیموں اورطبیبوں کی پسندیدہ جڑی بوٹی


مشہور نام ایرسا۔ انگریزی اورس روٹ۔فارسی میں اسے جڑ بنفشہ کے نام سےپکارتے ہیں لیکن اصل میں بنفشہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ایرسا  قدیم دواؤں میں سے ہے۔ یونان کے مشہور اطباء نے اس کا ذکر طبی کتب میں کیاہے اور اب تک یہ علم الادویہ میں شامل ہے اور کافی امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹری میٹریا میڈیکا میں ایکسڑیکٹم آئری  ڈس کے نام سے مستعمل ہے۔

مقام پیدائش:

کشمیر، افغانستان وایران۔

شناخت:

یہ  سوسن آسما نجونی کی جڑ ہے۔ اس نبات  کے پھول نیلے، زرد، سفید قوس و قزح کے ہوتے ہیں اس لئے اس کو ایرسا کہتے ہیں۔ اس کا بازاری نام’’ جڑ بنفشہ‘‘ہے  جو درست نہیں ہے لیکن اس سے بنفشہ کی طرح خوشبو آتی ہے اور ایک سال تک اس کی طاقت بنی رہتی ہے۔ایرساکی جڑ گرہ دار، لمبی، چپٹی اور سخت ہوتی ہے اور خوشبودار بھی ہوتی ہے۔ جسے پرفیومری میں استعمال کیا جاتا ہے اور مجنوں میں شامل کرتے ہیں۔ نبات ایرسا کے درمیان سے ایک سیدھی شاخ نکلتی ہے جس کے آخری سرے پر پھول ہوتا ہے۔ بیرونی چھلکا نیلا سرخ اور اندر سے سفید یا زرد سرخی مائل ہوتا ہے۔ایرسا پھول مختلف رنگوں کو لئے ہوتا ہے  جیسے قوس قزح ہوتی ہے۔ اس کے پھول کی پنکھڑیوں پر علاوہ مختلف رنگوں کے عام طور پر چھوٹے چھوٹے نقطوں کی قطاریں بھی ہوتی ہیں۔

اس کی جڑ  چبانے سے کڑوی معلوم ہوتی ہے اور زبان کو کاٹتی  چھیلتی ہے۔ اس کی خشک جڑ کو  جب ہاون  دستہ میں کوٹا جاتا ہے تو اس کی خوشبو ناک میں جاکر خراش پیدا کرکے چھینکیں لاتی ہے۔

مقدار خوراک:

ایک گرام سے تین گرام ۔

مزاج:

گرم و خشک درجہ دم۔

فوائد:

ایرسا  بیرونی طور پر استعمال کرنے سے سوزش اور جلن کی تاثیر رکھتا ہے اور اندرونی طور پر استعمال کرنے سے جلن اور سوزش معلوم ہوتی ہے اور اسہال لاتا ہے۔ایرسا  کو جب پانی میں پیس کر کسی حصہ بدن پر لیپ کیا جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اس جگہ کچھ لذع اورسوزش محسوس ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے اس مقام پر خون زیادہ مقدار میں جذب ہونے لگتا ہے اور جو جگہ سرخ ہوجاتی ہے وہاں  گرمی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس طرح یہ سوزش  وجلن  کی تاثیر رکھتا ہے۔ اگر اس کو  پیس کر نسوار لی جائے تو ناک کی غشاء مخاطی میں اس کا یہی مذکورہ بالا عمل ہوتا ہے اور اس میں لذع  ہوکر چھینکیں  آنے لگتی ہیں  اور غشائے مخاطی سے رطوبت مخاطیہ کا ترشح بڑھ جاتا ہے اور اس طرح اس کی چھینک لانے والی تاثیر عمل میں آتی ہے۔

 پرانے زہریلے زخموں ر لگانے سے یہ دوا اس جگہ کو گرمی اور جلن پیدا کرکے وہاں صاف خون  کو جذب کرنے کا موجب ہوتی ہے جس سے اس جگہ کے  گندہ مادہ کے صاف ہونے میں مدد ملتی ہے جس سے آخرکار زخم ہو صاف ہو کر خشک ہو جاتے ہیں۔

 اندرونی طور پر جب ایرسا  کو چبایا جاتا ہے تو زبان پر کڑواہٹ اور سوزش پیدا کرتی ہے جس کے باعث لعاب زیادہ مقدار میں رسنے لگتا ہے اور اس طرح یہ مدر لعاب دہن  تاثیر رکھتی ہے۔

اگر اس کو کھلایا جائے تو یہ معدے اور آنتوں میں پہنچ کر بھی لذع اور  سوزش پیدا کرتی ہے اور معدے میں خراش پیدا کرکے دست لے آتی ہے۔ جب یہ دوا خون میں شامل ہو کر پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے۔ وہاں تحریک پیدا کرکے بلغم کو خارج کرتی ہے اور بندش ایام کی حالت میں رحم کے عروقِ شعریہ  پیدا کر کے ایام لاتی ہے اور گردوں کو تحریک دے کر مدر بول تاثیر کرتا ہے۔

استعمال:

ایرسا محمرہ ،محلل  تاثیر کی وجہ سے اکثر بلغمی و عصبی امراض میں نمونیہ( درد پہلو)، درد سینہ،رعشہ، دھڑ مارے جانے و لقوہ، وجع المفاصل( گنٹھیا) اور عرق النساء میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بطور ضماد  بھی لگاتے ہیں اور کسی مناسب تیل میں ملا کر اس کی مالش بھی کرتے ہیں اور اس کے پھولوں اور جڑ سے روغن تیار کرکے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان امراض میں مذکورہ بالا طریقہ پر استعمال کرنے سے دورانِ خون تیز ہوجاتا ہے اور اس سے ان امراض کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 وجع المفاصل میں جبکہ جوڑ متورم ہو کر سخت ہو گئے ہوں اس دوا کے لیپ یا مالش کرنے سے اس جگہ خون کا دوران تیز ہو کر  اس جگہ کی منجمد رطوبتیں تحلیل ہوکر آرام آجاتا ہے۔ ورم طحال، خنازیر اور دوسری سوجن میں بھی اس کا ضماد  لگانے سے ورم تحلیل ہو جاتا ہے۔

 سردی کی وجہ سے درد سر یا درد شقیقہ کی شکایت ہو تو اس کا لیپ لگانے سے آرام آجاتا ہے۔ آگر نزلہ زکام میں بے احتیاطی کرنے سے ناک سے رطوبت کا اخراج بند ہو جائے،سر  بھاری ہوجائے اور اس میں درد سر ہونے لگے یا زکام کے بند ہو جانے اور رطوبت  کے رک جانے سے ناک کی بدبو  کی شکایت پیدا ہوجائےتو ایرسا  کو پیس کر بطور ناس استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ناک میں لذع پیدا ہو کر چھینکیں  آنے لگتی ہیں اوررطوبات کے خراج سے سرکا  بھاری پن و درد سر کی شکایتیں دور ہو جاتی ہیں۔

محمر اور جالی ہونے کی وجہ سے چہرے کے داغ دھبوں،کلف (چھائیاں)دور کرنے کے لئے پانی میں پیس کر طلاءکرتے ہیں۔مسوں وغیرہ کو تحلیل کرنے کے لئے پانی میں پیس کر طلا ءکرتے ہیں۔

 منفث بلغم ہونے کی وجہ سے بلغمی کھانسی اور دمہ م میں بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ دنوں کی بندش میں اندرونی طور پر کھلاتے اور بطور فرزجہ  استعمال کرتے ہیں۔ مدربول ہونے کی وجہ سے مرضِ  استسقاء میں دیتے ہیں۔

جب آنتوں کا فعل سست  ہو جانے سے قبض کی شکایت پیدا ہوجائے، یا آنتوں میں فضلات کے  بند ہو جانے سے پیٹ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں تو اس کو کھلانے سے جگر اور آنتوں میں تحریک پیدا ہوکر قبض کی شکایت دور ہو جاتی ہے اور یہ اپنی کیفیت لذع سے  کیڑوں کو نکال دیتا ہے۔حمول  کرنے سے چُرنوں کو ہلاک کرتاہے۔

دافع سموم ہونے کی وجہ سے  حیوانی اور معدنی سموم مخدر ہ کی سمیت  کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ مقام مارگزیدہ  پر پچھنے لگاکر یہ  دوا پیس کر لگانے سے اس جگہ خون زیادہ جذب ہونے لگتا ہے اور زرد آب  کا اخراج بڑھ جاتا ہے جس کے ذریعہ  زہر خارج ہو جاتاہے۔

 خوردنی سموم مخدر میں  اندرونی طور پر کھلانے سے قے لاکر  زہر کو معدہ سے نکال دیتا ہے لیکن اس غرض کے لئے  اس کو بڑی مقدار میں کھلانے کی ضرورت ہے۔ ایلوپیتھک طب میں ایرسا  کا جوہر حاصل کرکے استعمال کیا جاتا ہے جس کو انگریزی میں ایکسٹریکٹم آئری ڈساو لاطینی میں آئری سین کہتے ہیں۔ یہ جو ہر بھورے کالے رنگ کے سفوف کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کا مزا تلخ اور چریرا ہوتا ہے اور یہ معتدل، مسہل صفرا اور مدر بول تاثیر رکھتا ہے۔مذکورہ بالا افعال کی وجہ سے فعل جگر کی سستی، غلبہ صفراء،یرقان اور سوءہضم میں استعمال کرتے ہیں اور مدربول ہونے کی وجہ سے استسقاء میں دیتے ہیں۔

ایرسا  کے آسان و آزمودہ مجربات درج ذیل ہیں

لعوق ایرسا:

بلغمی کھانسی اورد مہ بلغم کو خارج کرکے پھیپھڑوں کا تنفیہ کرتا ہے۔

ایرسا 50 گرام، ملیٹھی چھلی ہوئی 50 گرام، دار چینی 20 گرام کو باریک پیس کر اور چھان کر شہد خالص 360 گرام میں ملائیں ۔مقدار خوراک پانچ پانچ گرام لعوق صبح، دوپہر اور شام دن میں تین بار چاٹیں۔

تیل ایرسا:

بدن پر مالش کرنے سے تکان کو دور کرتا ہے۔ لقوہ، دھڑ کے مارے جانے و گنٹھیا اور ذات الجنب وغیرہ میں فائدہ دیتا ہے۔ سردی لگنے سے کسی عضو میں درد ہو، اس کو دور کرتا ہے۔ ناک میں ٹپکانے سے ناک کی بدبو کو دور کرتا ہے۔ اگر ناک میں کیڑے پیدا ہو گئے ہوں تو بھی اس کو قطور کرنے سے مر جاتے ہیں اور ناک کا زخم اچھا ہوجاتا ہے۔ اندرونی طور پر پلانے سے دست لے آتا ہے۔

 ترکیب:

روغن ایرسا پھولوں سے بھی بنایا جاتا ہے اور اس کی جڑ سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ایرسا  تازہ پھول 100گرام لے کر تلوں کے تیل 500 گرام میں ڈال کر دو  ہفتہ دھوپ میں رکھیں۔موسم گرما میں ایک ہفتہ تک رکھنا کافی ہے۔ اس کے بعد تیل کو صاف کرکے دوبارہ اسی طرح پھول ڈال کر چھوڑ دیں اوراسی طرح تیسری بار کریں۔ اعلی درجہ  کا روغن ایرسا  تیار ہو جائے گا۔

روغن جڑ ایرسا:

جڑ ایرسا (50 گرام لے کر نیم کوب  کریں اور اس کو ایک کلو پانی میں جوش دیں یہاں تک کہ آدھا کلو رہ جائے۔ اس کو چھان لیں اور 250 گرام تلوں کا تیل( روغن کنجد) ملا کر ہلکی آنچ پر پکائیں۔ یہاں تک کہ پانی جل کر صرف تیل رہ جائے۔ اس تیل کو صاف کرکے رکھیں اور بوقت ضرورت کام میں لائیں۔

ضمادایرسا:

ورم طحال، خنازیر اور دیگر اورام و سوجن کو تحلیل کرتا ہے۔

ایرسا 50 گرام،اشق 20 گرام لے کر اُشق کو سرکہ  25 گرام میں حل کریں۔ اس کے بعد ایرسا باریک پیس کر ملالیں اور نیم گرم مقام ماؤف پر لگایا کریں۔

کھال روگ:

 اگر بیرونی طور پر پھنسیاں، مسے یا داغ وغیرہ ہوجائیں تو ایرسا کو پانی میں پیس کر لیپ کرنا چاہئے۔ اس سے فائدہ ہوجاتا ہے اور جلدی امراض دور ہو جاتے ہیں۔

دھڑکا مارا جانا:

جب اعصاب میں کمی  حس و حرکت  ہوکر دھڑ مارا جائےتو ایرسا کا ضماد  لگانا یا اس کے تیل کی مالش سے فائدہ ہوتا ہے۔

پرانا زخم:

جب کسی جگہ کا زخم بہت پرانا ہو جائے اور بھرنے میں نہ آئے تو اس کو بطور مرہم یا اس کے تیل کو لگانا لگانے سے نہ صرف زخموں کی صفائی ہوجاتی ہے بلکہ خون کا دورہ زیادہ ہو کر وہاں مرمت شروع ہوجاتی ہے اور بہت جلد وہ جگہ بھر جاتی ہے۔ معمولی ناسور اور گہرے زخم بھی بھر جاتے ہیں۔

نقوع ایرسا:

ایرسا کی جڑ  50 گرام کو ایک 1 1/4کلو ابلتے ہوئے پانی میں 20۔ 25 منٹ تک برتن میں بھگو رکھیں۔ بعد میں چھان کر بوتل  میں ڈال دیں۔ 50 گرام کی مقدار میں دیں ۔ بلغمی کھانسی میں مفید ہے۔

جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا

از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی

ایرسا (ایرسہ) 

دیگرنام:

یہ زعفران کے خاندان سے ہے۔ اس کو ہندی میں اندر دھنش ،پشپی سوسن اور انگریزی میں ائرس کہتے ہیں۔

ماہیت:

اس کے پھول پیلے ،نیلے یا سفید بہت سے رنگوں کے ہوتے ہیں یعنی اس کے پھول عموماًقوس قزح کی طرح ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کو انددھنش یاپشپی کہا جاتا ہے۔ اس کی جڑ ٹیٹرھی میڑھی،چپٹی اور گانٹھ دار ہوتی ہے جس سے بنفشہ کی طرخوشبو آتی ہے ۔اسکے گودے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ یہ بوٹی جڑ سے ایک تنا نکالتی ہے۔ اس کے اگلے حصے میں پتے گچھوں کی شکل میں نکلتے ہیں۔ہر پھول کی تین پنکھڑیاں ہوتی ہیں۔ پتے موٹے  دھاری داار اور جڑ چھوٹی تلوار کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی جڑبطور دوا استعمال ہوتی ہے۔

نیلے پھول والی سوسن کی سخت گرہ دار جڑ ہے کیونکہ اس سے بنفشہ کی مانند بو آتی ہے۔ اس لئے بعض اطباء اس کو بیخ بنفشہ کہتے ہیں اور فارسی میں بیخ بنفشہ کہتے ہیں لیکن بنفشہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

مقام پیدائش:

ایران ،کشمیر ،کابل ،شمالی ہندوستان، یورپ کے وسطی اور جنوبی ممالک وغیرہ۔

مزاج:

گرم خشک درجہ دوم

افعال:

محلل ،ملطف ،مسخن،مفتح، منقی ومنفث بلغم ،منفج، مجفف، جالی قابض خفیف ،مدر ،مسہل بلغم و صفراء،تریاق سموم

استعمال:

چونکہ ایر سا ملطف، مسخن ، مفتح سدہ ، منفج اور مسہل بلغم ہے لہذا اکثر امراض بلغمیہ،عصبانیہ مثلاً نزلہ ، زکام ، سرفہ، ضیق النفس، ذات الریہ بلغمی، خشونت قصبہ ریہ و حلق و سینہ، درد پہلو( پسلی کادرد) ذات الجنب، دردسینہ، اختلاج، خدر، رعشہ ،سکتہ، فالج اور نسیان کے لئے نافع ہے۔ پھیپھڑوں سے اخلاط غلیظ کو خارج کرتا ہے۔ ملطف اور مفتح ہونے کے سبب سے حیض اور پیشاب کا ادرارکرتا ہے۔ ان ہی افعال کے باعث استسقاء اور یرقان میں نفع ہے۔ جگر کو تقویت بخشتا ہے۔ جالی ہونے کی سے  ناخونہ چشم کے لئے مفید ہے اورطلا ءکلف و نمش وغیرہ جلدی امراض کے لئے فائدہ بخش ہے۔ جالی ہونے کے باوجود مجفف بھی ہے لٰہذا خراب قسم کے زخموں کو میل اورخراب گوشت سے پاک و صاف کر کے نیا گوشت اگاتا اور ان کو خشک کر دیتا ہے۔ ملطف اور محلل ہونے کی وجہ اورام غلیظ مزمنہ  اور خنازیر کی صلابتوں کےلئے مفید ہے۔ملطف  ،مسخن اور مفتح ہونےکی وجہ سے اس کو  باریک   پیس کر سونگھنے سے چھینکیں آتی ہیں لہٰذا مزمن درد سر اور نزلہ میں نفع ہے۔ آنکھ کے خراب فضلات کو بذریعہ عطسہ ناک دفع کرتا ہے۔

گزیدگی حشرات الارض کے علاوہ سانپ ، بچھو، بھیڑ کے لئے طلاً ء مفید ہے۔ ملطف و مسخن اور جالی ہوتے کے باعث سرکہ یا کسی مناسب روغن کے ہمراہ قطوراً بہرے پن اور بد بوے بینی کےلئے مفید ہے۔ (ناک کی بد بو)

خوشبودار ہونے کی وجہ سے پرفیومری میں استعمال کیا جاتا ہے اور سنونات میں شامل کرتے ہیں۔

نفع خاص:

پھیپھڑوں سے اخلاط غلیظ کو خارج کرتا ہے۔ بدل: باذریون

کیمیاوی صفات:

اس کی جڑ میں ایک اڑنے والا تیل ،نشاستہ ، رال اور کے علاوہ ایرسا کا جوہر  بھورے سیاہ رنگ کے سفوف کی شکل میں حاصل کیا گیا ہے۔جو مسہل صفراء اور مدر بول تاثرات رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے فعل جگر کی سستی ، غلبہ صفراء ، یرقان  اثنا عشری کی بدہضمی میں استعمال کرتے ہیں اور مدر بول ہونےکی و جہ سے استسقاء  میں بھی مفید ہے۔

اہم بات:

جوہر کی بجائے ان فوائد کو خالص نباتی حالت میں ایرسا کو  استعمال کر کے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

مقدارخوراک:

تین سے پانچ گرام(ماشے)

مدت اثر:

اسکی قوت اثر ایک سال تک قائم رہتی ہے۔