رام سرن داس قیام پاکستان سے قبل پنجاب کے بہت بڑے رئیس تھے‘ یہ رائے بہادر کے خطاب سے بھی جانے جاتے تھے ‘ ان کی رہائش گاہ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کے مزار شریف کے قریب تھی۔ رام سرن داس کھلے دل کے ایک ہمدرد انسان تھے اور وہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے تھے کہ وہ مسلمان ہے‘ سکھ ہے‘ ہندو ہے یا عیسائی ہے‘ ان کی نظر میں ہر انسان محض انسان ہوتا تھا اور وہ انسانیت کے ناتے اس کی مدد کرتے تھے‘ رائے بہادر رام سرن داس کے تین بیٹے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران لاہور میں انفلونز اکی وباء پھوٹ گئی۔
رام سرن داس کے تینوں بیٹے اس وباء کی لپیٹ میں آ گئے۔ رائے بہادر نے بیٹوں کے علاج کیلئے ڈاکٹروں کی لائین لگا دی۔ ان ڈاکٹروں میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل کرنل سدر لینڈ بھی شامل تھے لیکن رائے بہادر کے بیٹوں کو افاقہ نہ ہوا یہاں تک کہ ڈاکٹرمایوس ہو گئے‘ ان دنوں رائے بہادر رام سرن داس اپنے بیمار بیٹوں کے کمرے میں سوتے تھے۔ ایک رات کمرے میں آہٹ ہوئی اور رام سرن داس کی آنکھ کھل گئی۔انہوں نے دیکھا‘ کمرے میں ایک انتہائی نورانی شکل کے بزرگ موجود ہیں اور وہ بچوں کے سرہانے بیٹھ کر دعا مانگ رہے ہیں۔ رام داس گھبرا گئے اور انہوں نے بزرگ سے پوچھا ”آپ کون ہیں“ بزرگ تھوڑا سا مسکرائے اور بولے ”میں آپ کا ہمسایہ ہوں‘ مجھ سے آپ کی پریشانی دیکھی نہ گئی چنانچہ میں آپ کے پاس آ گیا‘ میں نے اللہ تعالیٰ سے آپ کے بیٹوں کی صحت یابی کی دعا کر دی ہے‘ فکر نہ کریں۔ یہ انشاء اللہ صحت یاب ہو جائیں گے“ رائے بہادر سرن داس نے پوچھا ”لیکن جناب آپ کا نام کیا ہے؟“ بزرگ بولے ”مجھے لوگ داتا گنج بخش کہتے ہیں ۔۔لیکن آپ کے لئے میں محض ایک ہمسایہ ہوں“
رائے بہادر کے بقول وہ بزرگ اس کے بعد وہاں سے رخصت ہو گئے لیکن اگلے دن واقعی ان کے بیٹے صحت یاب ہونا شروع ہو گئے۔ رائے بہادر کے ان تین بیٹوں میں ایک بیٹے کا نام روپ چند تھا اور یہ بعدازاں افغانستان میں انڈیا کا سفیر رہا تھا۔ رائے بہادر رام سرن داس نے بیٹوں کی صحت یابی کے بعد حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی مہربانی کا بدلہ آپ کے مزار پر بجلی لگوا کر دیا تھا ‘ اس طرح یہ برصغیر کا پہلا مزار تھا جس پر بجلی لگی تھی ۔