صحت

انکول (آنکوٹ) جڑی بوٹی کے خواص اور فوائد


(Asian opium) انکول

مختلف نام

اردو انکول۔آیوریدک انکول،انکوٹ،کولک،ویرگھ لیکک وشگھن۔ ہندی انکول،اکو سر،الکوڈ،ڈھیرا اکولہ۔مراٹھی انکول درخت۔آنکل،انکولی۔ گجراتی آکو،آنکولیہ،اوکلا۔تیلگواکولو،اوڑکو، اوڑکھیے۔ بنگالی آنکوٹ،آنکڑ،ڈھل،آنکڑ،ڈھلاکورا۔کرناٹکی اکولے انکولائے مرا۔لاطینی الجینم ملارکیاٹیالجینم ری ہیکسا پیٹیلیم   انگریزی میں  کہتے ہیں۔

شناخت:

انکول کا نام کا درخت ہندوستان کی خاص پیداوار ہے۔ یہ پیپل کی طرح سوائے ہندوستان کے کسی اور ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ درخت بھارتیہ آیوروید شاستر کا ایک قیمتی اور بے نظیر سرمایہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیورید گرنتھوں میں اس کی بے حد تعریف کی گئی ہے۔ چونکہ یہ ہندوستان کے سوا کسی دیگر ملک میں پیدا نہیں ہوتا اس لئے اس کا ذکر یونانی طب میں بہت کم ملتا ہے اور اسی لئے یونانی اطباء اس بوٹی کے نام وخواص، تاثیر و استعمال سے کم آشنا ہیں۔

اس جنگل کی آغوش میں پرورش پانے والی بوٹی(درخت)کے آیورویدک ناموں کے علاوہ ان سے ملتے جلتے نام دیگر زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔ جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ یہ بوٹی اپنے انداز سے اپنے اندر ایسے عجیب و غریب طبی خواص اور قدرتی معجزات لئے ہوئے ہے کہ انسانی حلقہ میں اس کا کرشمہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایک ذرہ میں زندگی بخش قوت پنہاں ہے۔

لفظ’’ انکول‘‘آنکلا سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں حیران کرنے والا۔ لہٰذا اس بوٹی کے طبی خواص انسانی عقل و دانش پر اپنے حیران کن تاثرات چھوڑ کر معجزہ قدرت دکھاتے ہیں۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔آپ نے اکثر مداریوں اور بازیگروں کو لوگوں کے جم غفیر ہجوم میں کھیل تماشے کرتے دیکھا ہوگا کہ یہ لوگ تماشائیوں کو آم کی سوکھی گٹھلی دکھا کر اور اس پر پانی چھڑک کر آن کی آن میں آم کا ایک ہرا بھرا پودا نمودار کرتے ہیں اور ہتھیلی پر سرسوں جماکر محو حیرت کر دیتے ہیں۔ اکثر یہ بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے جادوگر اپنے مجمع میں تماشائیوں کے روبرو لکڑی کی کھڑاؤں پر پاؤں رکھ کر بغیر کھونٹی یا کسی سہارا کے چلنے لگ جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے یہ سوچا بھی ہے کہ اس چھو منتر میں کیا راز مضمر ہے؟ آئیے میں آپ کو اس راز سے واقف کراتا ہوں۔

 یہ بازیگر یا مداری لوگ انکول  کے بیجوں کا تیل میں آم کی سوختہ گٹھلی یا سرسوں کے خشک دانے ترکرکے اپنے پاس رکھتے ہیں اورضرورت کے وقت مجمع میں تماشا دیکھنے والوں کے سامنے تیل الو یا گٹھلی سرسوں کے دانوں پر پانی کے چھینٹوں سے تر کر کے پلک جھپکتے ہی ایک لہلہاتا پودا نمودار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور  آپ یہ کرتب دیکھ کر انگشت بدندان  رہ جاتے ہیں۔ مداریوں کے اس چھو منتر میں اس خدادادہندوستانی عطیہ انکول کا ہی معجزہے جسے آپ مداریوں کی حیران کن جادوگری تصور کئے ہوئے ہیں۔

 یہ عجیب وغریب ہندوستانی بوٹیصرف ہندوستان کی پہاڑیوں اور ان کی تلہیٹیوں  میں پیدا ہوتی ہے لیکن خود رَو بوٹی ہے۔ یہ بھارت ورش کا ایک بے بہا سرمایہ ہے۔ اس کی پیدائش ہمیشہ پتھریلی ریتلی اور کنکریلی زمینوں میں ہوتی ہے۔ کوہ ہمالیہ کی تلہیٹی سے لے کر دریائے گنگا کے سبزہ زار کناروں پر اتر پردیش،اودھ، بہار میں اور ریتلے  مقام راجستھان میں، بنگال اور پنجاب کے پہاڑی علاقوں میں ریتلے میدانوں میں یہ بوٹی عام ملتی ہے۔ گجرات کاٹھیاواڑ اور ہندوستان کے مشرقی و مغربی ساحلوں پر یہ بوٹی عام دیکھی جاتی ہے۔کوہ شوالک کی تلہیٹی میں بھی  اس  اس کے درخت عام ملتے ہیں۔ یہ کشمیر کے سبزہ زاروں، جھیلوں، اور چشموں کے کناروں پر درخت اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔

 بمبئی کے  علاقے میں بھی  یہ بوٹی بکثرت پائی جاتی ہے۔ بمبئی کے باشندے اپنے باغیچوں کی سجاوٹ کے لئے اس کے پودے لگاتے ہیں اور بنگلو ں اور کوٹھیوں کی نمائش کے پیش نظر اس بوٹی کے پودوں کو گملوں میں لگاتے ہیں۔ یہ گملے نہایت سلیقہ سے قطاروں میں رکھے جاتے ہیں جن سے ان کی رہائش گاہوں میں خوبصورتی رقص کر نظر آتی ہے۔

شناخت:

آیورویک  گرنتھوں میں اس بوٹی کی دو قسمیں لکھی ہیں۔ ایک قسم سیاہ انکول ہے دوسری سفید  لیکن بعض گرنتھوں میں سرخ اور زرد قسم کی انکول بھی  لکھا ہے۔ جس انکول برکھش ( درخت) کے پھول بینگنی رنگت لئے ہوئے ہوں اور درخت کی چھال سخت اور مٹیالے رنگ کی ہوا سے سیاہ انکول کہتے ہیں۔ اس کے برعکس سفید پھول والی سفیدانکول  کہلاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ سیاہ  قسم کی انکول نایاب تو نہیں البتہ کمیاب ضرور ہے۔ سفید انکو لبا فراط پیدا ہوتی ہے اور عموما ًاسے بہتات سے استعمال  کیا جاتا ہے۔

 بعض مقامات پر زمین اور آب و ہوا کے لحاظ سے اس میں زردی مائل رنگت معلوم ہوتی ہے اور بعض جگہوں پر سرخی مائل رنگت کی انکول دیکھنے میں آتی ہے۔ اس لئے اسے زرد اور سرخ قسم کا بھی بتایا جاتا ہے لیکن طبی خواص  سب کے یکساں ہیں۔ ہر قسم کی انکول ادویات میں مستعمل ہے۔

انکول  ایک معقول درخت ہے جس کی ٹہنیاں عام طور پر عام درختوں کی طرح پھیل کر ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اس درخت کے دیکھنے میں بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ یہ درخت پچیس فٹ سے پچاس  فٹ تک اونچا ہوتا ہے اورتنے کی گولائی تقریبا ًتین فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کی ٹہنیاں  سفید رنگت  کی ہوتی ہیں۔ اوران پرکوئی کانٹا وغیرہ نہیں ہوتا۔ البتہ جہاں درخت کی ٹہنیوں پر پتے نکلتے ہیں وہاں سوئی کی مانند چھوٹے چھوٹے کانٹے پیدا ہو جاتے ہیں

اس کی جڑیں کوئی خاص پھیلاؤ میں نہیں ہوتیں اور نہ ہی عام درختوں کی جڑوں کی طرح ان کا گچھا سا ہوتا ہے۔ بلکہ ایک لمبی سی جڑ ہوتی ہے جو زمین کے نیچے تھوڑی دور تک پہنچتی ہے. اس جڑ کے ساتھ دو چار شاخیں ہوتی ہیں لیکن جب درخت جوان ہو جاتا ہے تو پھر اس کی جڑیں بڑھتی ہیں اور زمین میں کافی گہرائی تک چلی جاتی ہیں. اس کی جڑ کافی وزنی ہوتی ہے. یہ جڑیں شاخوں کی شکل میں زمین کے اندر ٹیڑھی سیدھی ہو کر پھیلتی ہیں اور مقدار میں بہت کم ہوتی ہیں۔

 اس کی جڑ کو اگر چوڑائی کے رخ کاٹا جائے تو اندر سے اس کا درمیانی حصہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور یہ اندر سے سوراخ دار ہوتا ہے۔ ان سراخوں کے اردگرد گول حلقے سے معلوم ہوتے ہیں۔ جڑ کا اوپر کا چھلکا دارچینی کی طرح گہرے خاکی رنگ کا کھردرا ہوتا ہے اور اس پر عمودی سرخ دھاریاں ہوتی ہیں۔ اندر کی چھال کا رنگ سفید اور ملائم ہوتا ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی خوشبو سی  محسوس ہوتی ہے۔ اور چھال کا ذائقہ نیم کی طرح کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔ یہ چھال ڈیڑھ انچ تک موٹی ہوتی ہے۔درخت کے تنے کی چھال اور ٹہنیوں کی چھال پر جہاں پتے نمودار ہوتے ہیں وہاں چھوٹے چھوٹے کاٹنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس درخت کے پھولوں کی خوشبو نہایت دلکش اور بھینی بھینی ہوتی ہے۔

انکول لکڑی نہایت مضبوط زردی مائل رنگت لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اس کا درمیانی حصہ ہلکے بادامی رنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں سے نہایت خوشبودار مہک سی آتی ہے۔ اس کے پتے لمبے چوڑے ہوتے ہیں۔ پتوں کی وضع قطع اور شکل وشباہت کنیر کے پتوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ پتے برچھی نما ہوتے ہیں اور ان کی لمبائی تقریبا چھ  انچ تک ہوتی ہے۔

 لیکن اس کا چھوٹے سے چھوٹا پتہ بھی تین  انچ سے کم نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ پتے تین  انچ سے لے کر چھ انچ تک ہو سکتے ہیں۔ اس درخت کے پتوں میں ایک خصوصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ بیل گری کے پتوں کی طرح ایک گانٹھ میں تین پتے ہوتے ہیں۔ پتے کے اوپر کا حصہ ہلکے سبز رنگ کا اور دوسری طرف کا حصہ زرد رنگ کا ہوتا ہے جس میں پتوں کے رگ اورریشے  ٹیڑھے سیدھے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ریشے اکثر سفید ہوتے ہیں۔

 جب درخت پر نئے پتے اگتے ہیں تو وہ نہایت ملائم  اور اُن پر روئیں  ہوتے ہیں۔ یہ روئیں نہایت نرم و نازک ہوتے ہیں۔

 موسم سرما کے اختتام پر نئے  پھول آنے پر اس درخت کے پتے ٹہنیوں پر سو کھ کر گر پڑتے ہیں۔ اس وقت یہ درخت بغیر پتوں کے پھولوں سے لدا اپنی دلکش بہار دکھاتا ہے اور اپنی لا مثال خوبصورتی کے لحاظ سے نہایت پسندیدہ اور جاذب نظر معلوم دیتا ہے۔چیت بیساکھ کے مہینے میں اس کے پھول جھڑ جاتے ہیں اور پھر نئے پتے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں۔  پتوں کا ذائقہ اور ان کی خوشبو میں کچھ ترشی پائی جاتی ہے۔ اس کے پتے کے ڈنٹھل چکنے چھوٹے اور ٹیڑے سے ہوتے ہیں۔ان پر بھی ملائم روئیں پیدا ہوتے ہیں۔

 اس کے کانٹے لمبائی میں 1/4انچ یا اس سے کچھ کم ہوتے ہیں۔ اس کے پھول چھوٹے اور زدرنگ کے گچھے دار ہوتے ہیں۔ درخت کی ملائم شاخوں پر جہاں جہاں پتے جھڑ جاتے ہیں وہاں دو دو پھل ایک ساتھ لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے پھولوں کے گچھوں کا گھیرا ساڑھے چھ انچ تک ہوتا ہے۔ ان میں چنبیلی کے پھولوں کی مانند خوشبو ہوتی ہے۔ ہر پھول بیضوی شکل میں چھ سے دس پنکھڑیاں لئے ہوتا ہے۔ بیضوی شکل میں موسم سرما کے اختتام پر اکثر ماگھ سے چیت کے مہینے تک اس میں  پھول نکلتے رہتے ہیں۔ پھولوں کی پنکھڑیاں نیچے کی جانب سے ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔ پنکھڑیوں کا گچھا باہر کی جانب سے کچھ زرد سا معلوم ہوتا ہے اور اندر کی طرف سے سفید ی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس پر بھی روئیں ہوتے ہیں۔ ان کا گھیرا چار  انچ یا کچھ کم ہوتا ہے۔

 اس کے پھولوں  کا زیرہ بھی کچھ عجیب سا ہوتا ہے۔ زیرہ کی دو قسمیں ہیں، ایک نر زیرہ اور دوسرا مادہ ذیرہ ہے۔ مادہ زیرہ صرف ایک ہی ہوتا ہے مگر نر زیرے بے شمار ہوتے ہیں۔ مادہ زیرا سفید رنگ کا اورنر زیرہ کی  رنگت مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے۔ان زیروں پر اگ بھری ہوتی ہے۔ دونوں قسم کے زیرے اکٹھے ہوتے ہیں۔

انکولریٹھے  یا جنگلی بیر کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے پھل کی گولائی ڈیڑھ انچ سے کم ہوتی ہے۔ پھل چکنااور گول ہوتا ہے۔ یہ پھل بیساکھ سے لے کر ساون تک لگتے اور پکتے ہیں۔ یہ پھل پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ جب پھل پکتے ہیں تو ان کی رنگت سبز ہوتی ہے اور پھل کے اوپر کی چھال پر عموماً دھاریاں ہوتی ہیں۔ پھل کا ذائقہ کسیلا اور چریرا سا ہوتا ہے۔ پھل کی کھال چمکدار ہوتی ہے اور اس پر لیس دار رطوبت پائی جاتی ہے۔ پھل کی پیشانی پر ناریل کی طرح سوراخ ہوتا ہے۔

 کچے پھل کی رنگت جامنی رنگ کی ہوتی ہے اور اس کی پیشانی سخت اور خشک ہوتی ہے۔ مغز کی چھال نہایت ملائم ہوتی ہے۔ اگر مغز کو ذرا سا دبا دیا جائے تو اس میں سے کانجی کی مانند لعاب سا نکلتا ہے۔اس لعاب  کی خوشبومن وعن مچھلی کی سی ہوتی ہے۔ ذائقہ میں لذیذ اور شیریں ہوتا ہے اور اگر یہ پھل نیم پکا کر کھایا جائے تو اس میں ترشی اور کسیلا پن ہوتا ہے۔

اس میں سخت گٹھلی دو جانب سے چپٹی سی نکلتی ہے۔ گٹھلی کے اندر بیچ کا مغز ہوتا ہے۔ بیج گول مگر اوپر نیچے سے چپٹا ہوتا ہے۔ بیج کی چھال پتلی اور بادامی رنگ کی ہوتی ہے۔ اگر بیج کو ناخن سے چھیلا جائے تو اس سے تیل نکلتا ہے۔ اس تیل میں بے شمار طبی  خواص پنہا ں ہیں اور کرشمہ قدرت ہے۔ اس تیل کی طبی خصوصیات لکھنے کے لئے ایک ضخیم  کتاب کی ضرورت ہے۔ میرا یہ حقیر و ناتواں قلم  اسکی عجوبہ کاریوں اور معجزہ خیز کرشمات لکھنے سے قاصر ہے۔ میں اس کی کس کس خوبی کا ذکر کروں۔ میں صرف اس مضمون کی تکمیل کے لئے چند ایک تجربات کا ذکر کروں گا جو میرے مشاہدے میں آچکے ہیں۔ امید ہے کہ میری ذیل کی سطور آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگی اور آپ کی واقفیت میں اضافہ ہونے کا موجب ہوں  گی۔

ذائقہ:

شیریں( میٹھا) ہوتا ہے۔

مزاج:

گرم و تر ہے۔

خوراک:

جڑ کی چھال سفوف بناکر بقدر ایک گرام لیں۔

فوائد:

سینہ قرطاس کی مرمریں  سطح پر سب سے پہلے اس کے بیجوں کا تیل نکالنے کی ترکیب سپرد قلم کرنا ضروری ہے۔ اگر موقع ملے تو اسے بصد شوق تیار کیجئے

انکول کے بیجوں  کا سفوف اور تلوں کا تیل ہم وزن لے کر باہم ملا لیں۔ یہ مرکب ایک کیچڑ کی شکل میں بدل جائے گا پھر برتن یا کھرل کو  جس میں یہ کیچڑ تیار کیا گیا ہے۔ دھوپ میں رکھ دیں اور سکھالیں، بالکل خشک ہو جانے پر دوبارہ تلوں کا تیل ملائیں دھوپ میں سکھا لیں۔ یہ عمل سات بار کریں۔

 اس کے بعد ایک چوڑے منہ والے شیشے یا چینی کے برتن کے منہ پر کپڑا کس کر باندھ دیں اور کپڑے کی سطح پر یہ خشک مرکب پھیلا دیں اور اوپر ابرک سفید کا ایک صاف اور لمبا چوڑا ٹکڑا رکھ کر اور  اس ابرک کے ٹکڑے پر کیکر کے دہکتے کوئلے رکھ دیں۔ آگ کی گرمی سے تمام تیل کپڑے سے چھان کر نیچے شیشے یا چینی کے برتن میں فلٹر ہو کر جمع ہو جائے گا۔ پھر اس تیل کو شیشی میں محفوظ رکھ لیں۔

پتال جنتر کے ذریعےبھی  اس کے بیجوں کا تیل نکالا جاسکتا ہے لیکن اس طریقہ کار سے روغن کنجد( تلوں کا تیل)کی بھاونائیں دینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے تیل کی رنگت زردی مائل سنہری ہوتی ہے۔ یہ تیل بڑے کام کی چیز  ہے

آیورویدک گرنتھوں میں لکھا ہے کہ اس کے بیجوں کے تیل کا ذائقہ کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے۔چریرا بھی ہوتا ہے۔ یہ تیل دست آور ہے۔ سوزش، درد سر،وات،پت  اور کف( بلغم، سودا اور صفرا)، خرابئ خون اور خوفناک زہروں کے لئے موزوں  اور بے مثال تریاق ہے۔ یہ تیل سنگرہنی اوراتی سار کے  دستوں کے لئے نافع الا ثر ہےاور پارے کو شدھ کرتا ہے۔

آیوریدک مہر شیوں نے اس کی بہت تعریف کی ہے اور اس تیل کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ جلودھر، زہریلے امراض، ہر قسم کے بخار، جلن، نزلہ، زکام،اتی سار(دست)، سنگرہنی، زہروں کے خوفناک تاثرات، سفید داغ،جذام(کوڑھ)، عام جسمانی کمزوری، جریان اور بواسیر وغیرہ اور مہلک و خوفناک امراضکے لئے تیز بہدف ثابت ہوتا ہے۔ جلدی امراض (چمبل،سورائسسیس وغیرہ)کے دافع  کے لئے انکول کا تیل بہترین معالج اور ہمدرد دوست سے کسی قدر کم نہیں۔

 طبی نقطہ نگاہ سے اس کے تیل کا مزاج دوسرے درجہ میں گرم ہے۔ جگر کو طاقت دیتا ہے اور کرم کش ہے۔ اگر حد اعتدال سے اس کا زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے۔ زیادہ مقدار میں اس تیل کا استعمال  دماغی نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے اور مریض اپنی طبیعت میں ایک ناگہانی پریشانی محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات مریض کی زندگی کو ایک خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ گویا تمام جسم میں ایک پریشان کن ہلچل مچ جاتی ہے۔ اس لئے اس کا استعمال بڑی احتیاط سے کیا جانا لازمی اور ضروری ہے۔

 اگر خدا نخواستہ غلطی سے اس کا زیادہ استعمال ہو جائے تو آپ فورا ًشنکھ پشیی  کا سفوف بقدر 3 گرام، گائے کے ایک  پاؤں دودھ کے ہمراہ ابال کر ٹھنڈا کرکے پی لیں۔ ذائقہ کے لئے دودھ میں مصری بھی ڈا لی جا سکتی ہے۔ اس سے فورا ًمریض  کی طبیعت بحال ہو جائے گی۔شنکھ پشپی اس  تیل کا صحیح اور جامع مصلح ہے بلکہ اس کا تریاق ہے۔

اس کی جڑ گرم اور چریر ی ہوتی ہے۔ مگر اس کاپھل سرد، طاقتوار اور جسم کو فربہ کرنے والا ہے لیکن زیادہ کھانے سے گرمی بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کی جڑ کی چھال کا سفوف تین گرام کی مقدار میں کھانے سے قے ہو جاتی ہے۔ اگر پوری مقدار نہ دی جائے تو قے  کی بجائے جی متلانے لگ جاتا ہے۔ اس کی تازہ چھال کا سفوف ایک گرام سے دو گرام تک دینے سے قےاور دست  بلاتکلیف ہوتے ہیں۔ بچوں کی مرگی کو دور کرتا ہے۔

 جڑ کی چھال کا سفوف پتوں کا سفوف باہم ملا کر دینے سے دِق کا عارضہ رفع  ہوتا ہے۔

 دردوں کی حالت میں اس کی جڑ کو پانی میں گھس کر لیپ کرنے سے آرام ملتا ہے۔

 اس کی لکڑی  یا پتوں کو فرش پر بچھاکر سونے سے سانپ، بچھو زہریلے جانور اور کیڑے مکوڑے نزدیک تک نہیں آتے۔ اسی طرح ڈنک مارنے والے بھڑ، مچھر وغیرہ تک بھی نہیں آتے۔ یہ ان کے لئے زہر قاتل ہے۔

انکول کے آزمودہ مجربات

۔    انکول کی جڑ کا سفوف ایک سے دو گرام تک مریض کو دینے سے پتلے دست آکر جگر کی خرابی دور ہوجاتی ہے اور پیشاب کے امراض دور ہوتے ہیں۔

۔    اس جڑ کو پانی میں گھس کر گرم پانی میں پلیگ کی گلٹی پر تین چار بار لیپ کرنے سے پلیگ  کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جسم میں کسقسم کی گانٹھ  یا رسولی پیدا ہو جائے تو اس کی جڑ کا بطریق مذکور گرم گرم لیپ کرنے سے فورا ًآرم ملتا ہے۔

۔    اس کی جڑ کو لیموں کے رس  میں گھوٹ کر گاڑھا لعاب بنا لیں اور آدھا چمچہ کھانا کھانے سے نصف گھنٹہ پیشتر صبح و شام پلاتے رہنے سے دمہ( ضیق النفس) کا عارضہ  کافور ہوجاتا ہے۔

۔    انکول کی چھال، رائی، لہسن ہر ایک چھ چھ گرام، خوب باریک پیس کر باہم ملا لیں۔ اس مرکب میں تین سالہ پرانا گڑ مرکب کے وزن کے برابر ملا کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بقدر دال ماش بنالیں۔ مریض  دمہ کو پہلے دودھ پلاکر یہ گولی نگلوا دیں،یا دودھ کے ہمراہ ہی مریض گولی نگل جائے۔ چند گولیاں نگلنے سے برسوں کا پرانا دمہ دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ بعض حالتوں میں بڑی گولیاں دو یا تین عدد دینے سے مریض کو قے آکر  تمام بلغم خارج ہو جاتا ہے اور مریض کو ہمیشہ کے لئے مرض سے نجات مل جاتی ہے۔ مریض کو استعمال کے دوران میں  گھی اور چاول بطور غذا  خوب دینےچاہئیں لیکن اس علاج میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔

۔    انکول کی جڑ کا سفوف 5 گرین سے8 گرین تک پانی میں خوب حل کر کے پلانے سے پسینہ آ کر بخار اتر جاتا ہے۔ یہ سفوف کپڑبیزہوناچاہئے۔ موسمی بخاروں کے لئے ازحد مفید ہے۔

۔    انکول کی جڑ ایک گرام سونٹھ1/2 گرام کے ہمراہ باریک پیس کر چاولوں کے دھوون کے ساتھ پکا کر کاڑھا تیار کریں۔ گھونٹ گھونٹ کرکے یہ کاڑھا پلانے سے نزلہ زکام رفع(uses of opium) ہوتا ہے۔

۔    اگر کسی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہو توانکول کی جڑ  25 گرام کو  باریک پیس کر دو کلو پانی میں ابالیں۔ 125 گرام پانی باقی رہ جانے پر ہرپندرہ منٹ کے وقفہ  کے بعد 25 سے 50 گرام کی مقدار میں یہ جوشاندہ گرم کئے ہوئے  گائے کے گھی میں  ملا کر پلانے سے قے یا  دست جاری ہو کر مارگزیدہ کا زہر جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔

زہر خارج ہوجانے پر متواتر ایک ہفتہ نیم کی چھال کا اندرونی چھلکا اور انکو ل کی جڑ کا چورن ڈیڑھ گرام ابال کر روزانہ صبح وشام پلاتے رہنے سے سانپ کا زہر قطعی طور پر خارج ہوجاتا ہے اور مریض کی زندگی بچ جاتی ہے

 ۔  انکول  کی جڑ کا سفوف ایک گرام پانی سے دیں، اس سے پیٹ کے کیڑے دور ہو جائیں گے۔

۔ انکول کی جڑ کی چھال ایک گرام، کالی مرچ 1/2گرام۔ سفوف بنا کر پانی سے دیں، بواسیر کے لئے مفید  ہے۔( حکیم ہر دے نارائن شرما دلگیر)

انکول( انکوٹ) پر ماڈرن تحقیقات

ڈاکٹر مُدین شریف کا کہنا ہے کہ انکول کی جڑ 50 گرین کی مقدار میں مفید ہے۔ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اس مقدار سے کم مقدار میں استعمال کئے جانے پر بخار کو کم کرتی ہے۔ یہ بہت تیز ہے۔ جلدی امراض( چرم روگ) دور کرنے کے لئے یہ کافی دن استعمال کرنے سے فائدہ دیتا ہے۔اپیکا کوائناجن امراض میں استعمال ہوتا ہے۔ ان میں جڑ انکو ل اچھی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی جڑ کا سفوف استعمال کرنے سے پسینہ  آکر بخار کی تیز ی بھی دور ہوجاتی ہے۔

 ساتھ ہی سردی لگنا، سر درد کا عارضہ بھی دور ہو جاتا ہے۔ یہ زہریلے امراض،کوڑھ کو بھی دور کرنے میں مفید ہے۔ یہ زیادہ مقدار میں استعمالکرنے پر قے  لاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں تھکاوٹ و کمزوری آ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے استعمال سے دل اور خون لے جانے والی ناڑیوں میں بہت فائدہ ہوتا ہے جس سے خون کا دباؤ کم ہوجاتا ہے یعنی ہائی بلڈ پریشر میں مفید ہے۔

 کرنل چوپڑا نے اس دوا پر بھاری کھوج  کی ہے۔ جوڑوں کے درد کو دور کرنے کے لئے انکول  کے پتوں کی پلٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی جڑ کی چھال سے بنایا ہوا تیل گنٹھیا میں مالش کرنے پر بہت فائدہ پہنچاتا ہے اور آرام آجاتا ہے اس کے پتوں کو  ابال کر خصیوں پر باندھنے سے انڈکوشوں  میں پانی اترنے( ہائڈروسیل) کا عارضہ  دور ہو جاتا ہے۔

انکول( انکوٹ) سے تیار ہونے والے کشتہ جات

کشتہ پارہ:

شدھ پارہ کوکھرل میں ڈال کر اور انکول کا رس  ڈال کر اچھی طرح کھرل کریں۔ جب پارہ اچھی طرح مل جائے تو پارہ کے برابرگندھک  مصفیٰ(شدھ) ملا کر اچھی طرح سے کھرل کرکے سکھا لیں۔ اب  اس کو کوزہ میں بند کرکے تین کلو چیتھڑوں  کپڑوٹی کر دیں ۔سوکھنے پر ہوا سے بچا کر چار پہر تک تیس  کلو اُپلوں کی آگ دیں۔ اس طرح پارہ بھسم ہو جائے گا۔ جب سرد ہو جائے تو نکال لیں۔ پارہ کشتہ ہوگا۔ خوراک ایک چاول بالائی یا مکھن میں دیں۔

شادی سے پہلے وشادی کےبعد کمزوری  میں مفید ہے۔دوران استعمال تیل و  ترش چیزوں سے پرہیز کریں۔

کشتہ تانبہ:

تانبہ مصفیٰ(شدھ) کو انکو ل کی موٹی جڑ میں سوراخ کرکے درمیان میں رکھ کر اوپر سے انکول کی چھال لپیٹ کراس پر کپڑوٹی کر کے چالیس کلو اوپلوں کی آگ گڑھا کھود کر دیں۔ سرد ہونے پر نکال لیں۔ سفید تانبہ  بھسم  تیار ملے گی۔ محفوظ رکھیں اور استعمال  میں لائیں۔

 مقدار خوراک:

ایک چاول  ہمراہ مکھن گائے دیں۔ شادی سے پہلے و شادی کے بعد کی کمزوری میں ازحد مفید ہے۔

کشتہ ہڑتال ورقی:

ہڑتال ورقی مصفیٰ(شدھ) کو انکول کے تیل میں گھوٹ کر  ٹکیہ بنالیں۔ ایک ہانڈی میں پیپل کی چھال کی راکھ بھر کر اس کے درمیان میں مندرجہ بالا ٹکیہ رکھ کر دوبارہ اسی طرح راکھ  بھر دیں۔ اب اسے بارہ بارآگ دیں۔ اس طریقہ سے ہڑتال کا بڑھیا کشتہ تیار ہوگا۔ خوراک ایک رتی مکھن میں دیں۔ زہریلے امراض، پرانا بخار اور کوڑھ میں مفید ہے۔

جڑی بوٹیوں کاانسائیکلو پیڈیا

از: حکیم وڈاکٹرہری چند ملتانی

(Asian opium) انکول

دیگرنام:

مرہٹی میں انکول ‘ہندی میں اکولہ ‘بنگالی میں کرکنٹہ ‘گجراتی میں اونکلہ ‘تلنگی‘سنسکرت میں انگولا اور انگریزی میں ایلنیگم کہتے ہیں۔

ماہیت:

سدا بہار قسم کا ایک چھوٹا درخت ہے۔جس کے پرے شفتالو کے مشابہ ہوتے ہیں۔اوران پر باریک باریک دھاریاں مثل پان کے پتوں
کی طرح ہوتی ہے۔پھول موسم گرما کے شروع میں آتے ہیں اور مئی اور اگست میں بکائیں کی مانند گچھے دار پھل لگتے ہیں۔اس درخت کے تمام اجزاء میں سے مچھلی کی طرح بو آتی ہے۔

رنگ:

سبزیا بھورا جبکہ پھول زرد ۔

ذائقہ:

پھل شیریں اورچھال تلخ۔

مقام پیدائش:

جنوبی ہند اوربرماکے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

مزاج:

گرم وتر درجہ دوئم۔

افعال واستعمال:

جڑ کی چھال مقئی ‘معرق‘دافع بخار‘ملین ‘قاتل کرم شکم اور مقوی دل ہے۔ریاح اوربلغم کے فساد کودفع کرتا ہے۔اس کے پتوں کا رس یا جڑ کو گھس کراورام اور ان ورموں پر جو جانوروں کے کاٹنے سے ہوں مفید ہے۔جڑ کی چھال ہمراہ مرچ سیاہ کےسفوف بناکر پھانکنا ،جزام آتشک اور جلدی امراضمیں مفید ہے۔اس درخت کا پھل مقوی معقدی اور مبرد ہے ۔اس کو جریان خون سل ودق اور جسم کی جلن کیلئے ہمراہ فائدہ مند ہے۔اس کے بیجوں سے تیلنکالا جاتا ہے۔جو جلانے کے کام آتا ہے۔اس کے پتوں کو بطور پلٹس استعمال کرتے ہیں۔

مضر:

مقئی ہے۔

کیمیاوی تجزیہ :

اس میں  پوٹاشیم کلورائیڈ کے علاوہ ایک کڑوہ الکلائیڈ پایاجاتا ہے۔جوکہ یقیناًجلدی امراض اور دافع بلغم معرق اور ملین ہے۔

مقدارخوراک:

جڑکی چھال بطور ایک رتی سے دورتی اور جبکہ بطور مقئی تین گرام تک۔