دنیا میں کسی جگہ ایک عورت اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اپنی دنیا میں گم خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی‘ ایک دن اچانک اس کے بیٹے کی اجل آن پہنچی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ عورت کیلئے یہ ناقابل برداشت صدمہ تھا کیونکہ اس کا بیٹا ہی اس کی کل کائنات تھا۔ اس کا ذہن نظام قدرت کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ روتی پیٹتی گاوں کے دانا حکیم کے پاس گئی اور حکیم سے گویا ہوئی ”حکیم صاحب کوئی ایسا نسخہ بتا ئیں جس سے میرا بیٹا لوٹ آئے‘ میں اس کے عوض اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرنے کو تیارہوں“۔ حکیم صاحب نے ایک نظر اس غمزدہ عورت پر ڈالی اور اس کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے کافی سوچ وبچار کے بعد بولے”ہاں ایک نسخہ ہے تو سہی‘ علاج کیلئے ایک ایسے سرسوں کے بیج کی ضرورت ہے جو کسی ایسے گھر سے لیا گیا ہو جس گھر میں کبھی کسی غم کی پرچھائیں تک نہ پڑی ہو“۔
عورت نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں‘ میں ابھی جا کر ایسا سرسوں کا بیج ڈھونڈھ کر لے آتی ہوں۔ عورت کے خیال میں اس کا گاؤں ہی تو وہ جگہ تھی جس میں لوگوں کے گھروں میں غم کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ بس اسی خیال کو دل میں سجائے اس نے گاوں کے پہلے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک جوان عورت نکلی۔ اس عورت نے اس سے پوچھا” کیا اس سے پہلے تیرے گھر نے کبھی کوئی غم دیکھا؟“ جوان عورت کے چہرے پر ایک تلخی سی نمودار ہوئی اور اس نے درد بھری مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا” میرا گھر ہی تو ہے جہاں زمانے بھر کے غموں نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے“خاتون کا کہنا تھا‘ سال بھر پہلے میرے خاوند کا انتقال ہوچکا ہے‘ میرے چار بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں، خاوند کے انتقال کے بعد گزر اوقات بہت مشکل سے ہو رہی ہے اورآجکل گھر کا سازوسامان بیچ کر مشکلوں سے گزارہ کر رہے ہیں بلکہ اب تو بیچنے کیلئے بھی ہمارے پاس کچھ زیادہ سامان نہیں بچا۔ جوان عورت کی داستان اتنی دکھ بھری اور غمگین تھی کہ وہ عورت اس کے پاس بیٹھ کر اس کی غم گساری اور اس کے دل کا بوجھ ہلکا کرتی رہی اور جب تک اس نے جانے کی اجازت مانگی تب تک وہ دونوں سہیلیاں بن چکی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کا وعدہ لیا اور رابطہ رکھنے کی شرط پر عورت اس کے گھر سے باہر نکلی۔ مغرب سے پہلے یہ عورت ایک اور خاتون کے گھر میں داخل ہوئی جہاں ایک اور صدمہ اس کیلئے یہاں منتظر تھا۔ اس خاتون کا خاوند ایک خطرناک مرض میں مبتلا تھا گھر پر صاحب فراش تھا۔ گھر میں بچوں کیلئے کھانے پینے کا سامان ناصرف یہ کہ موجود ہی نہیں تھا بلکہ یہ بچے اس وقت بھوکے بھی تھے۔ عورت بھاگ کر بازار گئی اور جیب میں جتنے پیسے تھے ان پیسوں سے کچھ دالیں، آٹا اور گھی وغیرہ خرید کر لائی۔ خاتون خانہ کے ساتھ مل کر جلدی جلدی کھانا پکوایا اور اپنے ہاتھوں سے ان بچوں کو شفقت سے کھلایا۔ کچھ دیر مزید دل بہلانے کے بعد ان سب سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہی کہ وہ کل شام کو پھر ان سے ملنے آئے گی اور دوسرے دن پھر یہ عورت ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر اس امید سے چکر لگاتی رہی کہ کہیں اسے ایسا گھر مل جائے جس پر غموں کی کبھی پرچھائی بھی نہ پڑی ہوں اور وہ وہاں سے ایک سرسوں کا بیج حاصل کرسکے مگر ناکامی ہر جگہ اس کی منتظر تھی۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ اس عورت کو کسی نئی دکھ بھری کہانی کاسامنا ہوتا اور یہ عورت مصائب اور غموں سے متاثر انہی لوگوں کا ایک حصہ بنتی چلی گئی اور اپنے تئیں ان سب میں خوشیاں بانٹنے کی کوشش کرتی رہی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عورت بستی کے ہر گھر کا حصہ بنتی چلی گئی۔ وہ عورت نہ صرف اپنا دکھ بھول چکی تھی بلکہ وہ یہ بھی بھول چکی تھی کہ وہ ایک ایسے گھر کی تلاش میں نکلی تھی جس پر کبھی غموں کی پرچھائی نہ پڑی ہو۔ وہ لا شعوری طور دوسرے کے غموں میں شریک ہو کر ان کے غموں کا مداوا کرتی جا رہی تھی۔ بستی کے حکیم نے گویا اسے اپنے غموں پر حاوی ہونے کیلئے ایسا مثالی نسخہ تجویز کر دیا تھا جس میں سرسوں کے بیج کا ملنا تو ناممکن تھا مگر اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے غم کو بھولنا ممکن تھا اوریہ اسی لمحے ہی شروع ہو گیا تھا جب وہ بستی کے پہلے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ جی ہاں یہ قصہ کوئی معاشرتی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک کھلی دعوت ہے ہر اس شخص کیلئے جو اپنی انا کے خول میں بند، دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے سروکار رکھے بغیر اپنی دنیاوی میں گم اور مگن رہنا چاہتا ہے حالانکہ دوسروں کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے غموں اور خوشیوں میں شرکت کرتے سے خوشیاں بڑھتی ہی ہیں کم نہیں ہوا کرتیں۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ آپ کا یہ معاشرتی رویہ آپ کو پہلے سے زیادہ خوش اخلاق انسان بنا دے گا۔