خصوصی فیچرز

بانٹنے سے گھٹتا نہیں۔۔


نیک دل بادشاہ کا لنگر کھلا رہتا اور مخلوق خدا صبح شام آتی اور کھانا تناول کرتی، نئے وزیر خزانہ نے بادشاہ کو مشورہ دیا، سرکار یہ لنگر حکومتی خزانے پر بوجھ ہے اس کو ختم کر دیں،بادشاہ نے وزیر کے کہنے پر لنگر بند کر دیا بادشاہ نے رات کو خواب دیکھا کہ وہ اپنے خزانے کے باہر کھڑا ہے اور مزدور خزانے کی بوریاں کمر پر لاد لاد کر باہر لے جا رہے ہیں‘ بادشاہ ایک مزدور سے پوچھتا ہے کہ خزانہ کہاں لے کر جا رہے ہو، مزدور نے بتایا اس خزانے کی اب یہاں ضرورت نہیں رہی‘بادشاہ کو یہ خواب مسلسل تین دن آیا، پریشان ہو گیا اور ایک اللہ والے کو بلایا اور پورا قصہ سنایا‘اللہ والے نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ فوراً لنگر کھول دو اس سے پہلے کہ تمہاری بادشاہی چھن جائے اور تم کنگال ہو جاوٴ‘بادشاہ نے فوراً لنگر کھول دیا اور مخلوق خدا اپنا پیٹ بھرنے لگی، اسی رات بادشاہ خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ خزانے کے دروازے پر کھڑا ہے اور مزدور خزانے کی بوریاں واپس لا رہے ہیں۔ بادشاہ نے پوچھا اب یہ بوریاں واپس کیوں لا رہے ہو۔ مزدورں نے کہا‘ ان کی یہاں پھر ضرورت پڑ گئی ہے۔
عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے
کہ بانٹنے سے گھٹتا نہیں بڑھتا ہے

موجودہ دور کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
وہ ناشتہ کر رہی تھی مگر اس کی نظر امی پر جمی ہوئی تھی ادھر امی ذرا سی غافل ہوئی‘ ادھر اس نے ایک روٹی لپیٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی‘ وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ہوئی مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماوٴں کو ہر بات کی خبر ہوتی ہے‘ وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی اور پھر تعاقب شروع ہو گیا‘ تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا‘ وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رہی تھی جب وہ سکول پہنچی تو دعاشروع ہوچکی تھی‘ وہ بھاگ کر دعا میں شامل ہو گئی‘ بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی‘ اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں مگر وہ اپنا سر جھکائے‘ آنکھیں بند کیے پورے انہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رہی تھی‘ تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا‘دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی ‘باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا مگر اس نے روٹی نہیں کھائی‘ گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی سکول سے چھٹی کا اعلان ہوا‘ تمام بچے باہر کی طرف لپکے‘ اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا‘ تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ہوئے تھاپھر اس نے دیکھا ‘وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی‘جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا‘ اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی‘ بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں‘اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا‘ بچی آگے بڑھ گئی مگر تعاقب کرنے والے کے پاوٴں پتھر ھو چکے تھے‘وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا۔


لگتا ہے کہ اپنی منی بیمارہے‘کیوں کیا ہوا‘اس کے پیٹ میں کیڑے ہیں‘ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ہے‘ وہ بھی چوری سے‘ یہ اس کی بیوی تھی۔
کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی‘کیوں کیاہوا‘روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ہوتی ہے‘ یہ کلاس ٹیچر تھی۔
وہ جب اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے‘ابو جی‘ ابو جی کہتے ہوئے منی اس کی گود میں سوار ہو گئی‘کچھ پتا چلا‘ اس کی بیوی نے پوچھا‘ہاں پیٹ میں کیڑا نہیں ہے‘ درد دل کا مرض ہے‘ابو کا دل بھر آیا‘منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔