خصوصی فیچرز

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔۔


مغرب کی نماز ہو چکی ہے، کچھ نمازی رخصت ہو گئے ہیں اور کچھ بیٹھے ذکر و اذکار میں محو ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں ‘ ایک شخص بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا ہے۔ خستہ حال، چہرے پر زندگی کی سختیوں کے نقوش‘ عرض کرتا ہے ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ میں مفلس اور مصیبت زدہ ہوں۔ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے مگر شاید زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی، مسجد میں پھیلی ہوئی خاموشی اور گھمبیر ہو جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند لمحے اس کے سراپا کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ایک شخص سے فرماتے ہیں ”ہمارے ہاں جاؤ اور اس مہمان کے لیے کھانا لے آؤ“ وہ خالی ہاتھ واپس آجاتا ہے اور زوجہ محترمہ کا پیغام دیتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے، میرے پاس اس وقت پانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مسافر پیغام سن کر دم بخود رہ جاتا ہے، وہ جس بابرکت ہستی کے پاس اپنے افلاس کا رونا لے کر آیا ہے خود ان کے گھر کا یہ حال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغام سن کر دوسری زوجہ مطہرہ کے پاس بھیجتے ہیں مگر وہاں بھی یہی جواب ملتا ہے، ایک ایک کر کے سب ازواج مطہرات سے بھجواتے ہیں لیکن سب کا جواب یہی ہے۔


نووارد کی حالت دیدنی ہے، افلاس اور فاقہ کشی سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی کہ اچانک اسے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنائی دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں ”آج کی رات اس شخص کی کون میزبانی کرے گا؟“ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ انصاری اٹھ کر عرض کرتے ہیں ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا گھر حاضر ہے“۔ پھر اس شخص کو ساتھ لے کر گھر آتے ہیں، بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں ”کھانے کو کچھ ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک مہمان ساتھ آئے ہیں“۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ”میرے پاس تو بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں“۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”بچوں کو سلا دو اور کھانا دسترخوان پر چن کر چراغ گل کر دو۔ ہم مہمان کے ساتھ بیٹھے یونہی دکھاوے کا منہ چلاتے رہیں گے اور وہ پیٹ بھر کر کھالے گا“۔


ام سلیم رضی اللہ عنہا ایسا ہی کرتی ہیں۔ اندھیرے میں مہمان یہی سمجھتا ہے کہ میزبان بھی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، مہمان کو کھانا کھلا کر سارا گھر فاقے سے پڑا رہتا ہے، صبح ہوتی ہے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں دیکھ کر تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں تم دونوں میاں بیوی رات مہمان کے ساتھ جس حسن سلوک سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوا ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ آیت تلاوت فرماتے ہیں۔ ترجمہ: ”اور وہ (دوسروں کی ضروریات کو) اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں خواہ انہیں خود احتیاج نہ ہو۔“