خصوصی فیچرز

بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق


مارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شب معراج میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے مصر کے قریب ایک مقام سے گزرے تو انہیں نہایت ہی اعلیٰ اور زبردست خوشبو آنے لگی۔ آپؐ نے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے؟ جواب ملا کہ ’’فرعون کی بیٹی کی باندی مشاطہ اور اس کی اولاد کی قبرسے آ رہی ہے‘‘ پھر جبرائیل ؑ نے اس کا قصہ بیان کیا کہ ’’مشاطہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ تھی اور وہ اسلام لا چکی تھی ایک دن فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی، وہ اٹھانے لگی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ اس پر شہزادی نے کہا کہ تم نے آج عجیب کلمہ بولا۔

رب تو میرے باپ فرعون ہیں تو پھر تو نے یہ کس کا نام لیا ہے؟ اس نے جواب دیا فرعون رب نہیں بلکہ رب وہ اللہ ہے جو مجھے، تجھے اور خود فرعون کو روزی دیتا ہے۔ شہزادی نے کہا اچھا تو میرے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے؟ اس نے جواب دیا، ہاں ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ سب کا رب اللہ تعالی ہی ہے۔ شہزادی نے اپنے باپ سے کہلوایا۔ وہ سخت غضباک ہوا اور اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا اور کہا کہ تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتی ہو؟ اس نے کہا میرا اور تیرارب اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بلندیوں اور بزرگی والا ہے۔ فرعون نے اسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے اُس کو خوب تپایا جائے اور جب بالکل آگ جیسی ہو جائے تو اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈال دیا جائے اور آخر میں اُن کی ماں کو بھی اسی آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ وہ گرم کی گئی جب آگ جیسی ہو گئی تو حکم دیا کہ اس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس میں ڈالنا شروع کردو۔

اس نے کہا بادشاہ ایک درخواست میری منظور کرنا، وہ یہ کہ میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈالنا۔ اس نے کہا اچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اس لیے یہ منظور ہے۔ اس کی دونوں بچیاں اس کی آنکھوں کے سامنے اس آگ میں ڈال دی گئیں، وہ فوراً جل کر راکھ ہو گئیں، پھر سب سے چھوٹے بچے کی باری آئی، وہ ماں کی چھاتی سے لگا دودھ پی رہا تھا، فرعون کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا تو اس نیک بندی کی آنکھوںتلے اندھیرا چھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اس وقت زبان دے دی اور اس نے بآوازِ بلند کہا۔ اماں جان افسوس نہ کر، اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو۔ حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اسے صبر آ گیا۔ اس بچے کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا، اور آخر ان کی ماں کو بھی اسی آگ میں ملا کر مار دیا گیا۔ یہ خوشبو کی مہکیں اس کی جنتی محل سے آ رہی ہیں‘‘ (مسند احمد، صحیح 2/31)