فیچرڈ

اکثر افراد کے کم عمری میں سفید بال کیوں نکل آتے ہیں؟ماہرین نے وجہ دریافت کرلی


ماہرین نے کم عمری میں بال سفید ہونے کی وجہ ڈھونڈ نکالی،تفصیلی تحقیق جاری کردی۔

تفصیلات کےمطابق  ماہر امراض جلد نے بتایا کہ اب تک ایسی کوئی مستقل میڈیکل تھراپی دستیاب نہیں جو سفید بالوں کو دوبارہ سیاہ کر سکے لیکن پروٹین اور بائیوٹن والی غذا مزید بال سفید ہونے سے روک سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی وجہ جینیاتی ہوتی ہے۔ اگر والدین کے بال پچاس سال کی عمر میں سفید ہوئے تھے تو بچوں میں یہ عمل چالیس یا اس سے بھی کم عمر میں شروع ہو سکتا ہے۔ اسے ’جینیٹک پری ڈسپوزیشن‘ کہا جاتا ہے، جسے روکا نہیں جا سکتا۔ ماحولیاتی عوامل بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کم عمری سے ہی مختلف کیمیکل ہیئر پراڈکٹس، جیسے کہ اسپرے اور اسٹائلنگ مصنوعات، کا استعمال بالوں کی ساخت اور رنگت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ غذائی کمی بھی بالوں کے قبل از وقت سفید ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ بالوں کی صحت کے لیے آئرن، وٹامن ڈی، بی کمپلیکس اور بائیوٹن جیسے اجزاء کی موجودگی ضروری ہے۔

ماہر امراض  جلد  کے مطابق کھارا یا سخت پانی بھی بالوں کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے وہ روکھے اور بے جان ہو جاتے ہیں۔ آٹو امیون بیماریاں جیسے ویٹیلیگو اور ایلوپیشیا ایریاٹا بھی اس کا سبب بن سکتی ہیں، جن میں بال جھڑنے کے بعد جب دوبارہ اگتے ہیں تو وہ سفید ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جو بال ایک بار سفید ہو جائیں، اُن کا قدرتی رنگ واپس لانا ممکن نہیں۔ اب تک ایسی کوئی مستقل میڈیکل تھراپی دستیاب نہیں جو سفید بالوں کو دوبارہ سیاہ کر سکے۔تاہم، کاسمیٹک حل جیسے میڈیکلی ٹیسٹڈ ہیئر کلرز اور کچھ مخصوص شیمپوز وقتی فائدہ دے سکتے ہیں۔

طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ جن کے بال سفید ہونا شروع نہیں ہوئے، وہ نیوٹریشن کا خاص خیال رکھیں۔ خوراک میں پروٹین، کاپر، بایوٹن، وٹامنز اور معدنیات شامل کریں، اسٹریس کم کریں اور بالوں کو کیمیکل ٹریٹمنٹس سے بچائیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر کے مشورے سے سپلیمنٹس کا استعمال بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ شیمپو کے انتخاب میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ سلفیٹ فری شیمپوز خشک یا حساس بالوں کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ روزانہ یا بار بار شیمپو کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ماہر جلد سے معائنہ کروا کر مکمل میڈیکل ہسٹری، فیملی ہسٹری اور ضروری لیبارٹری ٹیسٹ جیسے آئرن، وٹامن ڈی، بایوٹن اور کاپر لیولز چیک کروانا ضروری ہوتا ہے۔ ان رپورٹس کی روشنی میں طبی ماہرین مناسب علاج تجویز کرتے ہیں۔