فیچرڈ

آلودہ فضا میں سانس لینا دماغ کےلیے کیا خطرہ رکھتا ہے؟


کیا آپ جانتے ہیں کہ جو ہوا آپ روزانہ سانس میں کھینچتے ہیں، وہ صرف آپ کے پھیپھڑوں کے لیے نہیں بلکہ آپ کے دماغ کے لیے بھی زہر بن سکتی ہے؟ تازہ ترین سائنسی تحقیق نے ایک حیران کن انکشاف کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق آلودہ ہوا دماغ میں ٹیومر کے خطرات بڑھا سکتی ہے۔ یہ ٹیومر ایک عام لیکن غیر کینسر زدہ میننگیوما کہلاتا ہے، جو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد جھلیوں میں بڑھتا ہے۔

نیورولوجی جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق نے دنیا بھر کے ماہرین کو چونکا دیا ہے۔ تحقیق ڈینمارک کے شہر کوپن ہیگن میں کی گئی جس کا تعلق ڈینش کینسر انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ اس کے مرکزی مصنف ڈاکٹر اولا ہیوڈفلڈ ہیں، جو کہتے ہیں کہ “آلودہ ہوا ہمارے دماغ کے خلیات تک پہنچ کر انہیں نقصان پہنچاتی ہے۔”

یہ خطرہ بڑھانے والے سب سے اہم اجزاء نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO₂) اور باریک ذرات (PM 2.5) ہیں۔ یہ دونوں اجزاء زیادہ تر ٹریفک دھویں میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے شہر ان ذرات سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم ہر لمحہ انہیں اپنے اندر لے رہے ہیں۔ یہ ذرات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ انہیں روکا نہیں جا سکتا۔ یہاں تک کہ یہ ہمارے پھیپھڑوں سے خون میں داخل ہو کر دماغ تک پہنچ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اولا کے مطابق یہ ذرات دماغ کی حفاظتی دیوار (Blood-Brain Barrier) کو عبور کر لیتے ہیں۔ اس دیوار کا کام دماغ کو زہریلے مادوں سے بچانا ہے، لیکن آلودگی کے یہ ذرات اس رکاوٹ کو توڑ کر دماغ کے بافتوں میں گھس جاتے ہیں۔ نتیجتاً دماغ میں سوزش اور خلیاتی خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور یہی میننگیوما جیسے ٹیومر کی بنیاد بن سکتی ہے۔

یہ تحقیق 20 سال کے دوران لاکھوں افراد پر کی گئی۔ ان کے رہائشی پتے، اردگرد کی آلودگی اور صحت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ زیادہ آلودہ علاقوں میں رہتے تھے، ان میں دماغی ٹیومر، خاص طور پر میننگیوما کا امکان زیادہ تھا۔

میننگیوما ایک Benign (غیر کینسر زدہ) ٹیومر ہے، لیکن اگر یہ بڑھ جائے تو دماغ پر دباؤ ڈال کر شدید سر درد، نظر کی خرابی، اور دورے جیسے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ بعض اوقات اس کے علاج کے لیے سرجری ضروری ہو جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس خطرے سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ باہر نکلنے سے پہلے ماسک پہنیں، صبح و شام کے رش کے اوقات میں باہر نکلنے سے گریز کریں، زیادہ درختوں والے علاقوں میں وقت گزاریں، کھڑکیاں بند رکھیں جب باہر دھواں زیادہ ہو، ایئر پیوریفائر کا استعمال کریں اور زیادہ پانی پئیں تاکہ زہریلے مادے جسم سے خارج ہو سکیں۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومتوں کو چاہیے کہ آلودگی پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ گاڑیوں کی تعداد کم کریں، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دیں، فیکٹریوں کی چمنیوں پر فلٹر لگائیں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔

ہماری ذاتی ذمہ داریاں بھی کم نہیں۔ پیدل چلنے یا سائیکل کا زیادہ استعمال کریں، گاڑی کو بغیر ضرورت کے نہ چلائیں، کچرا جلانے سے گریز کریں، اپنے آس پاس پودے لگائیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔

یہ تحقیق صرف دماغی ٹیومر تک محدود نہیں بلکہ الزائمر، ڈپریشن اور یادداشت کی کمزوری سے بھی اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔ آلودگی دماغ کے کئی حصوں کو متاثر کر کے دماغی کارکردگی کو کم کر دیتی ہے۔

بچوں کے لیے یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہے۔ بچوں کا دماغ زیادہ حساس ہوتا ہے۔ آلودہ ہوا ان کی نشوونما روک سکتی ہے، ان کے رویے پر اثر ڈال سکتی ہے، پڑھائی میں کمزوری، چڑچڑاپن اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

بوڑھوں میں یادداشت ختم ہونے کی رفتار تیز ہو سکتی ہے اور دماغی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔ حاملہ خواتین میں آلودہ ہوا سے بچے کی صحت متاثر ہو سکتی ہے اور بچے کے دماغ کی نشوونما کمزور ہو سکتی ہے۔

لہٰذا زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں، کھڑکیاں کھولنے کے بجائے ایئر فلٹر استعمال کریں، آلودہ علاقوں میں جانے سے بچیں اور ماسک لازمی پہنیں۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنائے، صاف ایندھن متعارف کرائے، انڈسٹریل ایریاز میں قوانین سخت کرے اور عوامی آگاہی مہم چلائے۔ لیکن ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی صحت کی فکر کریں، دوسروں کو بھی سمجھائیں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ صاف ہوا فراہم کی جائے۔

یاد رکھیں، صاف ہوا ایک نعمت اور آلودگی ایک زہر ہے۔ اگر ہم آج نہیں جاگے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔ اپنے دماغ کی حفاظت کریں، اپنے پھیپھڑوں کی حفاظت کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کریں۔

🌱 صاف ہوا، صحت مند دماغ، خوشحال زندگی! 🌱