فیچرڈ

زیادہ فرائز کھانا کس دائمی بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے؟


حالیہ ایک بین الاقوامی تحقیق نے ایک دلچسپ اور تشویشناک حقیقت کو سامنے رکھا ہے: اگر کوئی شخص ہفتے میں تین یا چار بار سے زیادہ فرنچ فرائز کھاتا ہے تو اس میں ٹائپ 2 ذیابطیس کے خطرات نمایاں طور پر بڑھ سکتے ہیں۔ اس تحقیق کا مقصد آلو کے استعمال اور ذیابطیس کے درمیان تعلق کو جانچنا تھا، اور نتائج نے واضح کیا کہ آلو کے پکانے کا طریقہ صحت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

محققین نے پایا کہ جو لوگ ہفتے میں کم از کم تین بار فرائز کھاتے تھے، ان میں ٹائپ 2 ذیابطیس کا خطرہ تقریباً 20 فیصد زیادہ تھا۔ اس کے برعکس، جن لوگوں نے آلو کو ابال کر، بیک کر کے یا بھرتا بنا کر کھایا، ان میں ایسا کوئی اضافی خطرہ نہیں دیکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ صرف آلو کھانے میں نہیں بلکہ ان کو تلنے اور زیادہ درجہ حرارت پر پکانے کے طریقے میں ہے۔

ڈائیبیٹیز یو کے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فائے رائلے کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق بتاتی ہے کہ آلو اور ٹائپ 2 ذیابطیس کے درمیان تعلق جتنا سیدھا دکھتا ہے اتنا سیدھا نہیں ہے۔ ان کے مطابق، مسئلہ آلو کی غذائیت سے زیادہ اس کی تیاری اور کھانے کے انداز میں ہے۔ مثال کے طور پر فرنچ فرائز تیل میں گہرے تلنے کی وجہ سے زیادہ کیلوریز، چکنائی اور ایکریل امائیڈ جیسے نقصان دہ کیمیکلز پیدا کرتے ہیں، جو طویل مدت میں صحت کے لیے مضر ہو سکتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے محققین نے امریکہ میں کام کرنے والے تقریباً دو لاکھ پانچ ہزار میڈیکل ملازمین کے صحت سے متعلق کئی بڑے مطالعات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ یہ ڈیٹا تقریباً چالیس سال کے عرصے میں جمع کیا گیا، جس کے دوران لوگوں کی غذائی عادات کے بارے میں بار بار سروے کیے گئے۔ اس فالو اپ پیریڈ کے دوران ٹائپ 2 ذیابطیس کے 22 ہزار کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

فرنچ فرائز اور ذیابطیس کے درمیان تعلق کے سائنسی اسباب کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فرنچ فرائز میں کاربوہائیڈریٹس کی شکل زیادہ تیزی سے خون میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس سے بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ بار بار ایسا ہونا انسولین ریزسٹنس کو بڑھا سکتا ہے، جو ٹائپ 2 ذیابطیس کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ، فرائز میں استعمال ہونے والا تیل اکثر بار بار گرم کیا جاتا ہے، جس سے ٹرانس فیٹس پیدا ہو سکتے ہیں، یہ دل اور خون کی نالیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔

جب آلو کو ابالا یا بیک کیا جاتا ہے، تو ان میں موجود فائبر اور غذائیت بڑی حد تک محفوظ رہتی ہے، اور ان کا گلائیسیمک انڈیکس بھی نسبتاً کم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، تیل میں تلنے سے یہ خصوصیات کم ہو جاتی ہیں اور زیادہ کیلوریز کھانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں اُبلے یا بیک کیے گئے آلو کے ساتھ ایسا خطرہ سامنے نہیں آیا۔

اس تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے اور طویل المدتی غذائی مطالعات میں سے ایک پر مبنی ہے، اس لیے اس کے نتائج کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ چونکہ یہ مطالعہ طویل عرصے اور بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے، اس کے نتائج پالیسی سازوں اور صحت عامہ کے ماہرین کے لیے بھی اہم ہیں۔

ڈاکٹر رائلے کے مطابق، لوگوں کو آلو مکمل طور پر چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کے پکانے کے طریقوں پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ وہ تجویز کرتی ہیں کہ آلو کو بھاپ میں پکایا جائے، اُبالا جائے، یا کم سے کم تیل میں ہلکا سا فرائی کیا جائے۔ اس کے علاوہ، آلو کے ساتھ سبزیاں، دالیں اور پروٹین والی غذائیں شامل کرنے سے خون میں شکر کا اثر متوازن کیا جا سکتا ہے۔

تحقیق اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ فرنچ فرائز کا زیادہ استعمال صرف ذیابطیس ہی نہیں بلکہ موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کے خطرات بھی بڑھا سکتا ہے۔ اس لیے یہ ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے، جس میں صرف شوگر نہیں بلکہ مجموعی میٹابولک ہیلتھ متاثر ہوتی ہے۔

روزمرہ زندگی میں احتیاط کے لیے چند آسان اقدامات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، فرنچ فرائز کو ہفتے میں ایک یا دو بار تک محدود کرنا بہتر ہے۔ دوسرا، تیل بدلنے کی بجائے ایک ہی تیل کو بار بار گرم کرنے سے گریز کیا جائے۔ تیسرا، آلو کو تلنے کے بجائے اوون میں بیک کرنا یا ایئر فرائر کا استعمال بہتر ہے، کیونکہ اس سے کم تیل استعمال ہوتا ہے۔

فرنچ فرائز کھانے کے ساتھ مشروبات کے انتخاب میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ عام طور پر لوگ ان کے ساتھ کولڈ ڈرنکس یا شربت پیتے ہیں، جو شوگر کی مقدار کو مزید بڑھا دیتے ہیں اور انسولین کے دباؤ کو بڑھاتے ہیں۔ اس کے بجائے پانی یا بغیر شکر والی چائے کا انتخاب بہتر ہے۔

اس تحقیق سے ایک اور اہم سبق یہ ملتا ہے کہ کھانے کی عادات کے طویل مدتی اثرات ہمیشہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو ابھی کوئی بیماری نہ ہو، لیکن اگر وہ سالہا سال مسلسل زیادہ کیلوریز، زیادہ چکنائی اور تلی ہوئی اشیاء کھاتا رہے تو بعد میں میٹابولک بیماریاں سامنے آ سکتی ہیں۔

نتائج اس بات کی بھی یاد دہانی ہیں کہ صحت مند کھانے کے فیصلے صرف کیلوریز گننے تک محدود نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ وہ کیلوریز کہاں سے آ رہی ہیں اور کس طرح تیار ہوئی ہیں۔ فرنچ فرائز میں کیلوریز کے ساتھ چکنائی اور نمک کی زیادہ مقدار مل کر صحت پر بوجھ ڈالتی ہے۔

مجموعی طور پر، اس تحقیق کا پیغام یہ ہے کہ آلو بذاتِ خود نقصان دہ نہیں ہیں، بلکہ مسئلہ ان کو تیار کرنے کے طریقے اور استعمال کی فریکوئنسی میں ہے۔ اگر آپ آلو کو کم تیل میں، صحت مند طریقے سے اور متوازن غذا کا حصہ بنا کر کھاتے ہیں تو وہ غذائیت بخش بھی ہو سکتے ہیں اور ذیابطیس کے خطرات بھی نہیں بڑھاتے۔ لیکن اگر انہیں زیادہ تیل میں گہرے تل کر اور بار بار کھایا جائے تو خطرہ حقیقی ہے۔