فیچرڈ

مصنوعی مٹھاس کینسر کے علاج میں مداخلت کرسکتی ہے


حالیہ برسوں میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال دنیا بھر میں تیزی سے بڑھا ہے، کیونکہ یہ شوگر کے کم کیلوری والے متبادل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن نئی سائنسی تحقیقات بتا رہی ہیں کہ یہ مٹھاس، خاص طور پر سکرالوز (Sucralose)، بعض حالات میں صحت کے لیے نقصان دہ اثرات پیدا کر سکتی ہیں۔ ایک اہم تشویش یہ ہے کہ یہ مٹھاس کینسر کے علاج، خاص طور پر امیونوتھراپی (Immunotherapy)، کی مؤثریت کو کم کر سکتی ہیں۔

سکرالوز ایک مصنوعی مٹھاس ہے جو شوگر سے تقریباً 600 گنا زیادہ میٹھا ہوتا ہے، اور اسے عام طور پر ڈائٹ ڈرنکس، شوگر فری بیکڈ آئٹمز، چیوئنگ گمز اور پروٹین شیکز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے عالمی سطح پر کئی ریگولیٹری اداروں نے “محفوظ” قرار دیا ہے، مگر حالیہ مطالعات نے اس کے کچھ ایسے اثرات دکھائے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر کینسر کے مریضوں میں۔

تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ سکرالوز مدافعتی نظام کے کچھ خاص خلیوں، خاص طور پر ٹی سیلز (T-cells)، کی کارکردگی کو کمزور کر سکتا ہے۔ ٹی سیلز وہ سفید خلیے ہیں جو جسم کے دفاعی نظام میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر کینسر کے خلیوں کو پہچان کر ختم کرنے میں۔ جب یہ خلیے کمزور ہو جائیں تو کینسر کے علاج کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔

امیونوتھراپی ایک جدید کینسر علاج ہے جو مریض کے اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط کر کے کینسر کے خلیوں سے لڑنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے مدافعتی نظام پہلے سے ہی کمزور ہو، تو اس تھراپی کے نتائج بھی کم ہو سکتے ہیں۔ سکرالوز کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ امیونوتھراپی کے دوران مدافعتی ردعمل کو کم کر سکتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو آنتوں کی صحت ہے۔ ہمارے آنتوں میں موجود اربوں مائیکروبز (Gut Microbiota) نہ صرف ہاضمے میں مدد کرتے ہیں بلکہ مدافعتی نظام کو بھی ریگولیٹ کرتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مصنوعی مٹھاس آنتوں کے بیکٹیریا کے توازن کو بگاڑ سکتی ہیں، جسے ڈس بائیوسس (Dysbiosis) کہا جاتا ہے۔ یہ بگاڑ کینسر کے علاج، خاص طور پر امیونوتھراپی، کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔

2023 میں شائع ہونے والے ایک مطالعے نے یہ بتایا کہ سکرالوز کی زیادہ مقدار ٹی سیلز کی فعال صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔ چوہوں پر کی گئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب انہیں سکرالوز کی زیادہ خوراک دی گئی، تو ان کے مدافعتی ردعمل میں کمی واقع ہوئی، اور یہ اثر اس وقت خاص طور پر نمایاں ہوا جب وہ کینسر سے لڑ رہے تھے۔ اگرچہ انسانوں پر مزید تحقیق ضروری ہے، لیکن یہ نتائج ایک واضح خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس سب کے باوجود، ضروری نہیں کہ ہر مصنوعی مٹھاس ایک جیسا اثر ڈالے۔ سکرالوز کے ساتھ یہ مسئلہ زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے، لیکن ایسپرٹیم (Aspartame)، ساکرین (Saccharin) یا اسٹیویا (Stevia) کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی، کینسر کے مریضوں کے لیے احتیاط بہتر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو امیونوتھراپی یا دیگر مدافعتی نظام پر اثر ڈالنے والے علاج لے رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کا استعمال کم کرنا ایک محفوظ انتخاب ہو سکتا ہے۔ اس کے بجائے قدرتی متبادل جیسے شہد، کھجور، یا کم مقدار میں گڑ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، شوگر کی مقدار کو بھی اعتدال میں رکھنا ضروری ہے، کیونکہ زیادہ شکر بھی مدافعتی نظام اور مجموعی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

مریضوں کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ وہ اپنی خوراک کے بارے میں اپنے معالج یا نیوٹریشن اسپیشلسٹ سے بات کریں۔ ہر مریض کی حالت، علاج کی نوعیت، اور مجموعی صحت مختلف ہوتی ہے، اس لیے ایک مریض کے لیے محفوظ غذا دوسرے کے لیے مناسب نہ ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر یا ماہرِ غذائیت مریض کے مدافعتی نظام، کینسر کی قسم، اور موجودہ علاج کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔

کچھ سائنسدان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں مصنوعی مٹھاس کے بارے میں ایک متوازن نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ اگرچہ یہ تحقیق ایک خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، مگر یہ حتمی فیصلہ نہیں۔ مزید تحقیق ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ یہ اثرات کس خوراک کی مقدار پر ظاہر ہوتے ہیں، اور کیا یہ اثرات ریورس (واپس) بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

عمومی طور پر، کینسر کے مریضوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مصنوعی مٹھاس کا استعمال کم سے کم رکھیں، خاص طور پر علاج کے دوران۔ اس سے نہ صرف امیونوتھراپی کی مؤثریت برقرار رہ سکتی ہے بلکہ آنتوں کی صحت اور مدافعتی توازن بھی بہتر رہتا ہے۔ یہ ایک آسان مگر اہم قدم ہے جو طویل مدتی نتائج پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔

آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صحت مند خوراک صرف کیلوریز یا شوگر کے بارے میں نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کھانے کی چیزیں جسم کے اندر کس طرح کیمیکلی اور بایولوجیکلی اثر ڈالتی ہیں۔ مصنوعی مٹھاس بظاہر نقصان دہ نہ لگے، لیکن وہ جسم کے حساس نظاموں پر پیچیدہ اور دیرپا اثرات ڈال سکتی ہیں۔