دہلی شہر میں ایک سڑک ہے لال نہرو مارگ۔ اس سڑک پر پانچ چھ مرلے کا ایک چھوٹا سا سنگل سٹوری گھر ہے اور اس گھر پر لال بہادر شاستری کے نیم کی نیم پلیٹ لگی ہے۔ یہ گھر ہندوستان کے دوسرے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی ملکیت تھا‘ حکومت نے شاستری صاحب کی وفات کے بعد اس گھر کو میوزیم کا درجہ دے دیا۔ یہ میوزیم صبح آٹھ بجے کھلتا ہے اور شام چھ بجے بند ہوتا ہے اور سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی سیاح روزانہ اس کی سیر کرتے ہیں۔ اس میوزیم میں لال بہادر شاستری کی ذاتی استعمال کی اشیاء رکھی ہیں۔ آپ اگر ایک بار اس میوزیم کی سیر کر لیں تو آپ کو انڈیا کی ترقی اور پاکستان کی پسماندگی کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔ لال بہادر شاستری کو بچپن میں سوکھے کی بیماری ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی جسمانی گروتھ رک گئی‘ان کا قد پانچ فٹ سے اوپر نہ جا سکا اور ان کا وزن صرف انتالیس کلوگرام تھا۔انہوں نے انیس سو اکتیس میں سیاست میں قدم رکھا اور وہ انیس سو چھیاسٹھ تک اقتدار کے ایوانوں میں رہے۔ پنتیس سال کی اس سیاسی زندگی میں وہ کانگریس کے چوٹی کے راہنما بھی رہے۔ وہ اتر پردیش اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ وہ لوک سبھا کے ممبر بھی بنے‘ وہ ریلوے کے وفاقی وزیر بھی رہے‘
وہ صنعت اور تجارت کے وزیر بھی رہے‘ وہ وزیرداخلہ بھی بنے‘ وہ سینئر وزیر بھی رہے اور وہ انڈیا کے وزیراعظم بھی بنے لیکن پوری دنیا میں اس پانچ مرلے کے گھر کے سوا ان کی کوئی جائیداد نہیں تھی۔ ان کے پورے گھر کے فرنیچر‘ برتنوں اور کپڑوں کی مالیت چھ ہزار چار سو گیارہ روپے تھی‘ ان کے پاس صرف ایک کوٹ تھا اور یہ کوٹ بھی انہیں جواہر لعل نہرو نے اس وقت گفٹ کیا تھا جب وہ وزیرتجارت کی حیثیت سے کشمیر کے دورے پر جا رہے تھے اور ان کے پاس کوئی گرم کپڑا نہیں تھا۔ یہ کوٹ آج بھی اس میوزیم میں لٹک رہا ہے۔ وہ جب وزیراعظم تھے تو وہ ذاتی مصروفیات کیلئے سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘ انہوں نے ذاتی استعمال کیلئے گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا‘ انہوں نے تیرہ ہزار روپے میں فیٹ کار خریدی جس کیلئے انہوں نے چھ ہزار روپے ذاتی جیب سے ادا کئے جبکہ باقی سات ہزار روپے پنجاب نیشنل بینک سے قرض لئے گئے۔ بینک نے یہ قرضہ ان کی موت کے بعد معاف کر دیا۔
یہ گاڑی بھی آج اس میوزیم میں کھڑی ہے۔ وہ بستر پر کھیس بچھا کر سوتے تھے‘ ان کے گھر میں صرف دو بیڈ اور بانس کا ایک چھ سیٹر صوفہ تھا‘ ان کے بیڈ روم کا سائز بارہ بائی باہ تھا۔ ان کے گھر میں ایک چرغہ بھی تھا جو ان کی بیگم کو جہیز میں ملا تھا اور مرحومہ آخری سانس تک یہ چرغہ چلاتی رہیں۔ لال بہادر شاستری نو جون انیس سو چونسٹھ کو انڈیا کے پرائم منسٹر بنے تو وہ موت تک اسی گھر میں رہے۔ ان کا جنازہ اسی گھر سے اٹھا۔ لال بہادر شاستری کا انتقال گیارہ جنوری انیس سو چھیاسٹھ میں تاشقند میں ہوا تھا‘ ان کے انتقال کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ دس جنوری کو انہوں نے صدر ایوب خان کے ساتھ تاشقند کا معاہدہ کیا‘ اس معاہدے کی خبر انڈیا پہنچی تو انڈین میڈیا نے اسے لال بہادر شاستری کی شکست قرار دے دیا۔ لوگ بپھر گئے اور انہوں نے ان کے گھر کے سامے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اس مظاہرے کی اطلاع نا کی بیٹی نے انہیں تاشقند میں دے دی۔ شاستری صاحب نے اس خبر کو اتنا سیریس لیا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ تاشقند ہی میں مر گئے۔
لال بہادر شاستری کی کہانی سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرتے جب تک ان کی قیادت لال بہادر شاستری کی طرح سادگی‘ خلوص اور ایمانداری کا ثبوت نہیں دیتی اور دو اگر سیاستدان حساس ہوں‘ یہ درد دل رکھتے ہوں‘ ان کیلئے پبلک کمپین یا عوامی احتجاج ہارٹ اٹیک کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔