امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے علم فقہ میں وہ کمال حاصل کیا کہ ہر زمانے میں ان کے علم کا اعتراف کیا گیا۔ ایک بار انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنے استاد امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے مدینہ جائیں۔ مدینہ میں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی بیٹی بھی رہتی تھی جس نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے علم و تقویٰ کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا اور وہ بھی ان سے ملاقات کی متمنی تھی۔ جب اس کے علم میں یہ بات آئی کہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اس کے والد سے ملاقات کے لئے آنے والے ہیں تو وہ بھی سراپا انتظار بن گئی۔آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ایک قافلے کے ساتھ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ مدینے پہنچے اور سیدھے اپنے استادامام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پہنچے جہاں انہیں قیام کرنا تھا۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کی بیٹی نے دیکھا کہ کھانے پر بیٹھ کر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑی بیقراری سے کھانا کھایا جو اسے عجیب سا لگا۔ یہی نہیں عام حالات میں ایک انسان جتنا کھاتا ہے اس سے زیادہ کھایا۔ اس نے سوچا کہ عموماً ایسے متقی اور پرہیز گار بندے کم خوراک ہوتے ہیں لیکن امام صاحب اسے خوش خوراک لگے۔ کھانیکے بعد امام صاحب اپنے میزبان کے ساتھ عشاء کی نماز کو چلے گئے اور واپس آ کر بستر پر لیٹ کر گئے۔ لڑکی کو یہ بات بھی بڑی عجیب لگی۔
اس نے اپنے والد کو دیکھا تھا کہ وہ رات کے اکثر حصے میں عبادات کیا کرتے تھے۔ اس بات سے امام صاحب کی جو اس کے ذہن میں شبیہ تھی وہ خراب ہونے لگی۔ صبح کو تہجد میں بھی امام صاحب نہیں اٹھے بلکہ جیسے ہی اذان کی آ واز آئی وہ گھبرا کے اٹھے اور بغیر وضو کیے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ فجر کی نماز کے لئے چلے گئے۔ لڑکی کو تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہو رہا تھا کہ یہ کیسے متقی ہیں۔جب لڑکی سے ضبط نہیں ہوا تو اس نے اپنے والد امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے یہ ساری باتیں کہہ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہاکہ میں تو انہیں بہت بڑا متقی اورپرہیز گار سمجھتی تھی لیکن اپنے عمل سے یہ ایسے نہیں نظر آتے۔ امام مالک نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے اس کاذکرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی ان باتوں کی وجہ سے تم سے بدظن ہو گئی ہے۔ امام شافعی نے کچھ دیر توقف کیا اور فرمایا : جو اس نے دیکھا وہ سچ ہے لیکن وہ حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں گھر سے قافلے کے ساتھ روانہ ہوا تو پہلے ہی دن میرا زاد راہ چوری ہو گیا یہی نہیں بلکہ وہ رقم جو سفر کے خرچ کے لئے میں نے رکھی تھی وہ بھی چلی گئی۔
قافلے والوں کو جب علم ہوا تو انہوں نے اطمینان دلایا کہ وہ میری ضروریات کا خیال رکھیں گے لیکن چونکہ مجھے قافلے والوں کے مال میں بعض وجوہات کے سبب حرام کا شبہ ہو گیا تھا اس لیے میں نے اس پورے سفر میں صرف اتنا کھایا جو مجھے زندہ رکھنے کے لئے کافی تھا اور میں جب آپ کے گھر پہنچا تو بھوک سے نڈھال تھا۔ جب رزق حلال میرے سامنے آیا تو میں نے اس دن کئی ہفتوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اس میں شاید بھوک سے زیادہ کھا لیا۔ عشاء کی نماز میں نے آپ کی اقتدا میں پڑھی جس میں آپ نے سورہ بقرہ کی فلاں آیات پڑھیں تھیں اور میں تب ہی سے گھر واپس آتے ہوئے انہی آیات پرغور کر رہا تھا یہاں تک کہ میں نے ان سے مسائل کا استنباط شروع کیا اور رات بھر میں میں نے ان سے ننانوے مسائل نکالے اور یہ سب آپ کے گھر کے برکت والے کھانے کی وجہ سے تھا یہاں تک کہ موذن نے فجر کی نماز کا اعلان کیا اور میں ہڑ بڑا کر اٹھا اور آپ کے ساتھ نماز کو روانہ ہو گیا۔ چونکہ میں سویا ہی نہیں اس لئے وضو کی حاجت نہیں تھی اور اسی وضو سے میں نے فجر پڑھ لی تھی۔