ملک میں انصاف اور عدل کی کیاصورتحال ہے اس کا اندازا آپ چند چھوٹے چھوٹے واقعات سے لگا لیجئے‘ جنرل ضیاء الحق پاکستان کے مضبوط ترین صدر تھے‘ان کے والد جالندھر میں امام مسجد تھے اور یہ لوگ 1947ء میں مشرقی پاکستان میں شفٹ ہوئے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد حکومت نے انہیں پشاور میں ایک گھر الاٹ کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے والد نے اس مکان کا آدھا حصہ کسی کو کرائے پر دے دیا۔ 1950ء میں کرائے دار نے اس حصے پر قبضے کر لیا جس پر جنرل ضیاء الحق کے والد نے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔
یہ مقدمہ چلنا شروع ہوا تو چلتا چلا گیا۔ اس دوران کیپٹن ضیاء الحق‘ میجر ضیاء الحق‘ کرنل ضیاء الحق‘ بریگیڈئر ضیاء الحق ‘ میجر جنرل ضیاء الحق‘ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق ہو گئے لیکن ان کے مکان کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں ملک میں مارشل لگایا اور پورے ملک کے مالک بن گئے۔ وہ ایک دن اپنے آفس میں بیٹھے تھے کہ ان کا کرایہ دار خود ہی مکان کی چابیاں لے کر حاضر ہو گیا۔ اس نے جنرل ضیاء الحق کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی اور عدالت میں جا کر جنرل ضیاء الحق کے حق میں بیان دے دیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ جنرل صاحب کے والد سید مشرف الدین منسٹری آف فارن آفیئرز میں ملازم تھے۔ محکمے نے انہیں کسی غلطی کی بناء پر نوکری سے برخاست کر دیا اور ان کی پنشن روک دی ۔ صدر پرویز مشرف کے والد نے محکمے کے خلاف سروسز ٹریبونل میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس مقدمے کا فیصلہ بھی جنرل پرویز مشرف کے صدر بننے تک لٹکا رہا۔
جب صدر پرویز اقتدار پر قابض ہوئے تو فارن آفس نے خود ہی سید مشرف الدین کی پنشن کا چیک ان کے گھر بھجوا دیا۔ اسی طرح پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری پنجاب جاوید محمود خان کو اپنی آبائی زمین ایک سو چالیس سال بعد واپس ملی‘ ان کی زمین 1870ء میں ان کے رشتے داروں کے قبضے میں گئی تھی‘ وہ 140سال تک یہ زمین استعمال کرتے رہے۔ جاوید محمود خان جب چیف سیکرٹری پنجاب بنے تو بورڈ آف ریونیو نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو طاقت میں تھے‘ اس ملک میں عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا آپ ان واقعات سے خود اندازہ کر سکتے ہیں۔