خصوصی فیچرز

اگر صلح ہی کرنی تھی تو پھر


ہمارے ایک وزیراعظم انڈیا کیخلاف اخلاقی امداد حاصل کرنے کیلئے چین گئے‘ وہاں ان کی ملاقات چین کے صدر کے ساتھ ہوئی‘ اس ملاقات کے دوران ہمارے وزیراعظم نے چین کے صدر سے اخلاقی حمایت کی درخواست کی تو چینی صدر نے ان سے پوچھا ‘آپ جب انڈیا کی قیادت کے ساتھ ملتے ہیں تو آپ کس زبان میں بات کرتے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم نے جواب دیا‘ہم اردو میں بات کرتے ہیں‘ چینی صدر نے پوچھا‘کیا آپ دونوں یہ زبان سمجھ لیتے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم نے جواب دیا‘ہاں بڑے آرام سے‘ چینی صدر نے پوچھا‘اور آپ میرے ساتھ کس زبان میں بات کر رہے ہیں‘ وزیراعظم نے کہا‘میں انگریزی میں بات کر رہا ہوں‘ آپ کا ترجمان اسے چائنیز زبان میں ترجمہ کر کے آپ کو سناتا ہے۔


آپ جواب دیتے ہیں اور ترجمان اس جواب کوانگریزی میں کنورٹ کر کے مجھے سنا دیتا ہے“ چینی صدر مسکرائے اور بولے ”آپ بڑے دلچسپ لوگ ہیں‘ آپ ان لوگوں سے لڑتے ہیں جو آپ کی زبان سمجھتے ہیں اور ان لوگوں سے مدد طلب کرتے ہیں جن تک پیغام پہچانے کیلئے آپ کو ترجمان کی ضرورت پڑتی ہے‘ اس کے بعد چینی صدر نے کہا ”میرا مشورہ ہے آپ ان لوگوں کو اپنا دوست بنا لیں جو آپ کی زبان سمجھتے ہیں‘ آپ کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے‘ اسی قسم کا مشورہ ماؤزے تنگ نے 1965ء کی جنگ کے دوران صدر ایوب خان کو دیا تھا۔ ایوب خان چند دن کیلئے چین سے مدد لینا چاہتے تھے‘ ماؤزے تنگ نے پوچھا ‘چند دن بعد کیا ہو گا؟ ایوب خان نے بتایا‘یہ چند دن کی جنگ ہے اس کے بعد ہماری صلح ہو جائے گی“ ماؤزے تنگ نے کہا ”اگر صلح ہی کرنی تھی تو پھر جنگ لڑنے کی کیا ضرورت تھی‘ آپ لڑو تواس وقت تک لڑو جب تک آپ پسپا ہوتے ہوتے پہاڑ تک نہیں پہنچ جاتے یا پھر لڑائی کے میدان میں قدم ہی نہ رکھو۔


ہم ایک انوکھی قوم ہیں‘ ہم دنیا بھر سے امداد بھی لیتے ہیں اور پھر پوری دنیا کو آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔ ہم کمزور بھی ہیں اور ساتھ ہی ڈینگیں بھی مارتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کلیئر کیوں نہیں کر لیتے۔ ہم یہ فیصلہ کیوں کر لیتے کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ ہم نے اگر انڈیا کے ساتھ لڑنا ہے تو بسم اللہ کیجئے لڑیے اور اس وقت تک لڑیے جب تک ہم یا انڈیا زندہ ہیں اور ہم نے اگر اس کے ساتھ نہیں لڑنا تو ہم اپنے تمام ایشوز ساٹ آؤٹ کر لیں۔ اسی طرح ہم فیصلہ کر لیں ہم نے امریکا کا غلام بن کر رہنا ہے یا پھر ہم نے ایک آزاد اور خودمختار ملک بننا ہے۔ ہم نے اگر غلام بننا ہے تو پھر قوم کو یہ پیغام دیں ہم امریکا کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے اور اس کے بعد امریکا کی ہر ہاں کو ہاں اور ہر ناں کو ناں سمجھنا شروع کر دیں اور اگر ہم نے خودمختار بننا ہے‘ ہم نے غیر ملکی امداد سے جان چھڑانی ہے تو ہم آج سے ہی یہ اعلان کر دیں۔ ہم پھر سیلف ریلائنس کی طرف چلے جائیں۔ ہم اس کنفیوژن میں زندہ کیوں رہنا چاہتے ہیں۔