انسانی جسم میں ناف کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لیکن ماں کے پیٹ میں بچے کو اس کے جسم سے جوڑنے والی یہ آنول نال بہت خاص ہے۔اسی کے ذریعے رحمِ مادر میں بچے کو غذائیت ملتی ہے اور پیدائش کے فوری بعد اسے کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے، جو کچھ روز بعد ایک گڑھے کی صورت باقی رہ جاتی ہے۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ محض اس نال کی گہرائی چند ملی میٹر کے اس گڑھے سے کہیں زیادہ ہے جو آپ کے جسم پر نظر آتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں بچے سے خون کی نالیاں بچے تک خون کی ترسیل اور واپسی کرتی ہیں۔
جب انسان ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ناف پر آنول یا نالی موجود ہوتی ہے جو ماں کے رحم کی اندرونی دیوار پر نالی سے جاکر ملتی ہے جس سے جینن کو رحم مادر میں غذا اور آکسیجن ملتی ہے اور اس کے فضلات خارج کرنے میں مدد ملتی ہے۔حالیہ سائنسی شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آنول کو کاٹنے میں چند منٹ کی تاخیر سے بچے کو 80 سے سو ملی لیٹر خون ملتا ہے جو کہ بچے کی نشوونما پر مثبت اثر بھی مرتب کرتا ہے۔
پیدائش کے بعد جب اس نالی کو کاٹا جاتا ہے تو ایک چھوٹا ابھار بنتا ہے جو زخم ٹھیک ہونے کے بعد نشان چھوڑ جاتا ہے اور یہی آپ کی ناف ہوتی ہے۔ویسے تو اکثر افراد کا خیال ہے کہ ناف کی ساخت کا انحصار پیدائش میں مدد دینے والی ڈاکٹر یا دائی کی قینچی کی صلاحیت پر ہوتا ہے مگر یہ درست نہیں۔بنیادی طور پر ناف کی ساخت کا انحصار مادر رحم میں بچے کی جلد کے پھیلاﺅ پر ہوتا ہے۔ویسے ناف کی شکل جیسی بھی ہو یہ تو یقینی ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد کو اس کا استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، تاہم اگر آپ طب کے کسی شعبے کی تعلیم حاصل کررہے ہیں تو پھر آپ اسے معدے کے مرکز کی حیثیت سے شناخت کرتے ہوں گے۔آنول کٹ جانے کے بعد ناف کے اندرونی حصے کی رگیں اور شریانیں بند ہوکر عضو یا جوڑ کا سہارا دینے والی بافتوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں یعنی کنکٹیو ٹشوز کا کام کرنی لگتی ہیں۔یہ بافتیں اوپر جگر کے پاس مختلف حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور ناف کے پیچھے بدستور جڑی ہوتی ہیں۔
ناف کے قریب موجود شریانیں جسم کے اندر گردشی نظام کا حصہ بن جاتی ہے اور وہاں سے خون مثانے اور دیگر حصوں میں جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر آپ ناف کے اندر انگلی گھمائیں تو ایسا لگے گا کہ مثانے میں جھنجھناہٹ ہورہی ہے۔
اس کے علاوہ ناف لیپرو اسکوپک سرجری کے آغاز کے طور پر بھی کام کرتی ہے جس سے پیٹ کے کسی اور حصے پر زخم سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
قدیم زمانے میں جب میڈیکل سائنس اتنی جدید نہیں تھی، ماہر طبیب انسان کی ناف سے انہیں لاحق امراض کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔
آپ نے بعض اوقات کسی یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہوگا کہ میری ناف اتر گئی، ایلوپیتھی یا دیگر میں درحقیقت ناف کا اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
تاہم یہ بھی درست ہے کہ یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ عام طور پر بھاری وزن اٹھانا، معمول سے ہٹ کر سخت محنت اور کھانا نہ کھانا ہوسکتی ہے۔
جہاں تک ناف کے اندر میل موجود ہونے کی بات ہے تو وہ اکثر کپڑوں کے ریشوں کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں جلد کے مردہ خلیات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔