کسی جزیرے میں ایک امیرشخص رہتا تھا، جسے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک دن شکار پر جاتے ہوئے اس کی نظر ایک غریب ٹوکریاں بنانے والے کی زمین پر پڑی۔ اس زمین میں نرسل (ایک پودا)اگے ہوئے تھے۔ اس کھیت کی ناہمواری اور نرسلوں میں سے گزرنے کی تکلیف امیر کو بہت ناگوار گزرتی تھی۔ایک دن امیر نے غریب کو بلا کر کہا ” تم یہ زمین ہمیں دے دو“۔ غریب نے جواب دیا ” حضور! میرا تو گزارہ اسی پر ہے، میں بیچنا نہیں چاہتا“۔ اس پر امیر ناراض ہو گیا، اس نے غریب کو خوب پٹوایا پھر تمام نرسلوں کو جلوا دیا،جس پر غریب روتا ہوا بادشاہ کے پاس چلا گیا۔
بادشاہ نے امیر کو بلا کر حال پوچھا تو امیر نے جواب دیا ”بے شک میں نے اس آدمی کو اس لیے مارا اور اس کے کھیت کو جلایا ہے کہ اس نے میرے حکم کی تعمیل نہیں کی“۔
بادشاہ نے کہا ” تم نے دولت کے غرور میں ایک بے گناہ غریب کو ناحق تکلیف دی اور بڑا نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ تمہارا پردادا اس سے بھی زیادہ غریب تھا۔ وہ ہمارے ہاں کام کرنے کی بدولت اتنی دولت کا مالک بناتھا۔جس کے ورثے پر اس وقت تم اتنے مغرور ہو رہے ہو۔ میرے نزدیک یہ غریب تم سے اس لئے بہتر ہے کہ اپنی محنت سے روزی کماتا ہے“۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ امیر اور ٹوکریاں بنانے والے کو ایک غیر آباد جزیرے پر چھوڑ دیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل میںدونوں کو ایک ہفتے کیلئے ایک ایسے جزیرے پر اتار دیا گیا جہاں صرف جنگلی آدمی رہتے تھے۔جنگلیوں نے انہیں دیکھ کر پہلے تو مارنا چاہا مگر ٹوکریاں بنانے والے نے انہیں اشاروں کے ذریعے سمجھایا کہ ہم تمہاری خدمت کریں گے۔ ساتھ ہی وہاں سے نرسل لے کر ایک ٹوپی بنائی اور ایک جنگلی کے سر پر پہنا دی۔جنگلی اس تاج سے بہت خوش ہوئے اور اس کے پاس ٹوپیاں بنوانے کیلئے ہر وقت ان کی بھیڑ رہنے لگی۔ امیر کی سخت شامت آئی کہ ٹوپیاں نہ بنا سکنے کی وجہ سے انہوں نے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا۔
آخر امیر نے تنگ آکر ٹوپیاں بنانے والے سے کہا ”اگر تم مجھے ان وحشیوں سے چھڑوا دو، تومیں گھر پہنچتے ہی آدھی جائیداد تمہاری نذر کر دوں گا“۔یہ سن کر غریب ٹوکری والے نے جنگلیوں کوا شارے سے سمجھایا کہ یہ میرا مدد گار ہے اسے کچھ نہ کہو۔ جس پر جنگلیوں نے امیر کو پھر نہ چھیڑابلکہ ٹوکری والے کے ساتھ اسے بھی کھانا دینے لگے۔جوں توں کر کے ہفتہ ختم ہوا تو ایک سرکاری کشتی آکر انہیں بادشاہ کے روبرولے گئی۔بادشاہ نے سب قصہ سن کر امیر سے کہا ”تم نے دیکھ لیا دولت کا محل کیسا ناپائیدارہے اور اس پر غرور کرنے والا کیسا احمق ہے۔ اصل دولت مند وہی ہے جو ہنر جانتا اور محنت کر سکتا ہے۔ اب جاﺅ اپنا وعدہ پورا کرو اور اس غریب کو اپنی آدھی جائیداد دو“۔
امیر نے گھر پہنچ کر اقرار کے مطابق آدھی جائیداد غریب کے حوالے کر دی اور اس طرح غریب نے اپنے صبر کا پھل پا لیا۔