خصوصی فیچرز

سعودی عرب کا ایک عجیب و غریب واقعہ


جج صاحب نے شفقت سے فرمایا ‘بیٹا ہم مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق منحوس نہیں ہو سکتی‘ تمہاری بیوی معصوم اور بے قصور ہے‘ تم اسے منحوس سمجھ کر کفران نعمت کررہے ہو‘ تمہارے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات اور حادثات محض اتفاق ہیں‘ یہ خاتون اگر تمہارے عقد میں نہ ہوتی تو بھی یہ تمام واقعات تمہارے ساتھ پیش آتے‘ تم اس کا ہاتھ پکڑو اور گھر واپس لوٹ جاؤ‘ جج کے ریمارکس سن کر خاوند کا دل ٹوٹ گیا‘ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی کا ہاتھ تھاما اور کمرہ عدالت سے باہر نکل گیا‘ وہ ابھی بمشکل پارکنگ لاٹ تک پہنچا تھا کہ عدالت کا ہرکارہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور الجھی ہوئی سانسیں تھام کر بولا‘ آپ کو جج صاحب بلا رہے ہیں‘ خاوند نے بیوی کو گاڑی میں بٹھایا اور تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرہ عدالت میں واپس آ گیا‘ جج صاحب کا ماتھا پسینے سے بھیگا ہوا تھا‘ ان کے ہاتھ میں سرکاری خط تھا‘ وہ بار بار خط کی طرف دیکھتے تھے اور ماتھے کا پسینہ پونچھتے تھے‘ وہ جج کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ جج نے اس کی طرف دیکھا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ‘تم ٹھیک کہتے ہو‘ یہ عورت واقعی منحوس ہے‘ تم اسے فوری طور پر طلاق دے دو‘خاوند نے حیرت سے پوچھا ‘جناب کیا ہوا؟ جج نے کاغذ اس کے سامنے لہرایا اور دکھی آواز میں بولا ‘تم جوں ہی عدالت سے باہر نکلے‘ میری ٹرانسفر کا حکم آ گیا‘ یہ عورت واقعی منحوس ہے‘ یہ ایک بار میرے سامنے کھڑی ہوئی اور میرا بیڑہ غرق کر دیا‘ تم روز اس کے ساتھ رہتے ہو‘ میں تمہاری مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہوں‘ تم اس سے جلد سے جلد جان چھڑا لو‘ جج نے اس کے ساتھ ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔


یہ واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا تھا‘ سعودی عرب کا ایک شہری بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا‘ وہ بیوی کو لے کر عدالت میں پیش ہو گیا‘ قاضی جج نے طلاق کی وجہ پوچھی‘ خاوند نے بتایا‘یہ خاتون میرے لئے منحوس ثابت ہو رہی ہے‘ میں نے جب سے اس کے ساتھ شادی کی میں اس وقت سے مسلسل مسائل کا شکار ہوں‘ جج نے پوچھا ‘کیسے؟ خاوند بولا ‘میں ایک دن اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا‘ میں گاڑی سے تازہ تازہ باہر نکلا تھا‘ یہ مہمان بن کر ہمارے ہمسایوں کے گھر آ رہی تھی‘ میں اس کا قد‘ بت اور چال ڈھال دیکھ کر مبہوت ہو گیا‘ میں سحر کے عالم میں اسے دیکھتا چلا گیا‘ اچانک دھماکہ ہوا‘ میں نے مڑ کر دیکھا اور میری روح فرسا ہو گئی‘ میری نئی نویلی کار پر کوڑے کا ٹرک چڑھ گیا تھا‘ یہ میرا اس کی نحوست کے ساتھ پہلا رابطہ تھا‘ میرا خاندان رشتہ لے کر اس کے گھر گیا‘ راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا اور میری والدہ فوت ہو گئی‘ میں اسے بیاہ کر لایا تو ہمارے ہمسائے کے گھر میں آگ لگ گئی‘ وہ آگ پھیلتے پھیلتے ہمارے گھر تک پہنچ گئی‘ ہمارا نیا باورچی خانہ جل کر راکھ ہو گیا‘ میرے والد اسے ملنے کیلئے آئے‘ سیڑھیوں سے پھسلے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور میرا بھائی اور میری بھابھی ملاقات کیلئے آئے تو ان کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ خاوند خاموش ہو گیا‘ جج نے کہا ‘یہ سارے حادثے محض اتفاق بھی تو ہو سکتے ہیں‘ خاوند نے جواب دیا ‘میں بھی شروع میں یہی سمجھتا تھا لیکن میں نے جب غور کیا تویہ سارے حادثات محض اتفاق محسوس نہ ہوئے‘ مجھے یہ حقیقت لگے‘ جج نے پوچھا ‘مثلاًوہ بولا‘ مثلاً میں جب بھی اسے شاپنگ کیلئے لے کر جاتا ہوں‘ میرا چالان ضرور ہوتا ہے‘ میرا بٹوہ یا بیگ ضرور گم ہوتا ہے اور میری گاڑی کو ڈنٹ ضرور پڑتا ہے‘ میرے پاؤں میں دوبار موچ بھی آ چکی ہے‘ میرے کپڑے کئی بار پھٹ چکے ہیں اور میں کئی بار ڈگمگا کر گر چکا ہوں‘ ہمارے گھر میں جو بھی آتا ہے وہ لڑتا ہوا یا روتا ہوا واپس جاتا ہے‘

ہمارے گھر کی طرف آنے والے لوگوں کو بھی کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے‘ ہمارے گھر کی بجلی‘ گیس اور پانی کی لائین بھی اکثر پھٹ جاتی ہے اور آپ آخری ستم بھی ملاحظہ کیجئے‘ میں پچھلے ہفتے بے روزگار بھی ہو گیا‘ مجھے نوکری سے جواب مل گیا‘ جج نے اثبات میں سر ہلایا اور پوچھا‘ یہ کیا گارنٹی ہے یہ سارے واقعات تمہاری اہلیہ کی وجہ سے ہو رہے ہیں‘ کیا یہ ممکن نہیں تم منحوس ہو اور یہ بے چاری تمہاری وجہ سے یہ ساری تکلیفیں برداشت کر رہی ہو‘ خاوند نے ہاں میں سر ہلایا اور بولا‘جناب میں نے یہ بھی سوچا تھا لیکن یہ جب بھی میکے جاتی ہے‘ میری زندگی معمول پر آ جاتی ہے اورمیرے سسرال کے لوگ حادثوں کا شکار ہونے لگتے ہیں‘ میں جب بھی اکیلا گھر سے نکلتا ہوں میرے ساتھ خیریت رہتی ہے لیکن جب بھی یہ میرے ساتھ باہر جاتی ہے یا میں ٹیلی فون پر اس سے رابطہ کرتا ہوں‘ میرا برا وقت شروع ہو جاتا ہے چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں میرے اندر نہیں خرابی اس کے اندر ہے‘ مجھے اس سے الگ ہو جانا چاہیے‘ جج نے تحمل کے ساتھ یہ ساری گفتگو سنی لیکن وہ خاتون کو منحوس ماننے کیلئے تیار نہ ہوا اور اس نے خاوند کو تسلی دے کر واپس بھجوا دیا لیکن وہ لوگ جوں ہی کمرہ عدالت سے نکلے جج کی ٹرانسفر کا پروانہ آ گیا‘ جج نے اپنا ہرکارہ دوڑایا‘ خاوند کو واپس بلایا‘ اپنی ٹرانسفر کا پروانہ دکھایا اور اسے مشورہ دیا ‘تم اپنی بیوی کو فوراً طلاق دے دو“ اور عدالت سے نکل گیا‘یہ سعودی عرب کا واقعہ ہے اور یہ واقعہ مشال السدیدی نے سعودی گزٹ میں تحریر کیا۔