خصوصی فیچرز

جنرل ضیاء الحق کی توبہ


جنرل ضیاء الحق چاؤ شسکو کے بہت فین تھے‘ 1986ء میں غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس میں جنرل ضیاء الحق کی چاؤ شسکو سے ملاقات ہوئی تو جنرل صاحب نے ان سے عرض کیا ” آپ مجھے زیادہ دیر تک پاپولر صدر رہنے کا کوئی نسخہ بتائیں“ چاؤ شسکو مسکرا کر بولے ”آپ اپنی پاپولیرٹی کے معاملے میں کبھی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر انحصار نہ کریں“ جنرل ضیاء الحق نے پوچھا ”کیوں؟“ چاؤ شسکو نے جواب دیا ”خفیہ اداروں کی نوے فیصد رپورٹس جھوٹی ہوتی ہیں‘ یہ ہمیشہ حکمرانوں کی انا کو بانس پر چڑھا تے ہیں‘ آپ عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھیں‘ میری طرح بھیس بدل کر عوام میں جائیں اور عوام سے اپنے بارے میں ڈائریکٹ رائے لیں“ جنرل صاحب کو چاؤ شسکو کا مشورہ اچھا لگا۔


اس ملاقات کے حوالے سے محمد حنیف نے اپنی مشہور کتاب ”اے کیس آف ایکس پلوڈنگ میگوز“ میں بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ محمد حنیف نے لکھا کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان واپس آ کر سردیوں کی ایک رات اپنے مالی کی سائیکل اور چادر لی اور اپنے بارے میں عوام کی ڈائریکٹ رائے معلوم کرنے کیلئے راولپنڈی میں نکل کھڑے ہوئے‘ راستے میں پہلے ناکے پر ہی پولیس نے جنرل ضیاء الحق کوروک لیا اور کانسٹیبل نے صدرسے پوچھا ”اوئے تم رات کے تین بجے سائیکل پر حساس علاقے میں کیوں پھر رہے ہو“ جنرل ضیاء الحق نے مسکین لہجے میں پوچھا ”کیوں جناب مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی؟“ کانسٹیبل نے اس گستاخی پرصدر صاحب کو فوراً مرغا بننے کا حکم دے دیا‘ صدر صاحب نے اس سزا سے بچنے کی کوشش کی لیکن کانسٹیبلوں نے انہیں ڈنڈے دکھانا شروع کر دئیے لہٰذا مجبوراً جنرل صاحب نے کان پکڑ لیے‘ یہ سزا ذرا مشکل تھی چنانچہ جنرل صاحب نے عوام سے ڈائریکٹ رائے لینے کا منصوبہ درمیان میں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کھڑے ہوئے‘ منہ سے چادر ہٹائی اور کانسٹیبل کو للکار کر بولے ”اوئے بے وقوف انسان میں جنرل ضیاء الحق ہوں“

کانسٹیبلوں نے قہقہہ لگایا اور پنجابی میں بولے ”ایک جنرل ضیاء الحق کا عذاب کم تھا کہ تم دوسرے ضیاء الحق آ گئے ہو‘ خبردار جو کان چھوڑے تو“ جنرل ضیاء الحق نئی مصیبت کا شکار ہو گئے ‘ وہ انہیں دیر تک اپنے صدر ہونے کا یقین دلاتے رہے لیکن عوام کی ڈائریکٹ رائے ان کا مذاق اڑاتی رہی۔ جب جنرل ضیاء الحق تھک گئے تو پولیس والوں نے ان کے ساتھ ایک دلچسپ ڈیل کی‘ انہیں کہا گیا کہ وہ اگر کان چھوڑنا چاہتے ہیں توجنرل ضیاء الحق کے بارے میں کوئی دلچسپ لطیفہ سنائیں ۔ جنرل صاحب کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا چنانچہ وہ سخت سردی کے عالم میں سڑک پر کھڑے ہو کر کانسٹیبلوں کو اس وقت تک اپنے خلاف لطیفے سناتے رہے جب تک پروٹوکول اور سیکورٹی کا عملہ ان تک نہیں پہنچ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس کے بعد کبھی عوام کی ڈائریکٹ رائے جاننے کی غلطی نہیں کی۔