اٹھارہ سو اسی میں سکاٹ لینڈ کے جنگلوں میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور اس واقعے سے سوشل سائنس کی ایک نئی تھیوری نے جنم لیا۔ سکاٹ لینڈ کا ایک انتہائی غریب کاشتکار رات کے وقت اپنے کھیت سے گھر کی طرف جا رہا تھا‘ اچانک اسے جنگل میں کسی بچے کی رونے کی آواز آئی۔ کاشتکار رکا اور بچے کی تلاش میں جنگل میں اتر گیا۔ جنگل میں پہنچ کر اس نے دیکھا ایک پانچ چھ سال کا بچہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے‘ بچہ گردن تک مٹی میں دفن ہو چکا تھا اور اگر وہ کاشتکار پانچ منٹ لیٹ ہو جاتا تو بچہ پوری طرح دلدل میں دفن ہو جاتا۔ کاشتکار نے رسہ پھینک کر بچے کو باہر نکالا‘اسے نہلایا‘ اس سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ معلوم ہوا بچہ اپنے والدین کے ساتھ پکنک منانے آیا تھا اور اس کے والدین قریب ہی ایک ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کاشتکار نے بچے کو ریسٹ ہاؤس پہنچایا اور گھر واپس آ گیا۔
اگلے دن کاشتکار کے گھر کے سامنے ایک بڑی سی بگھی رکی اور اس میں سے ایک رئیس شخص نیچے اترا‘ اس نے کاشتکار کو باہر بلایا اور اس کو بتایا کہ اس کا شمار برطانیہ کے چند نائیٹس یعنی نوابوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ رات کا شتکار نے جس بچے کی جان بچائی تھی وہ نواب کا بیٹا تھا۔ نواب نے کاشتکار کا شکریہ ادا کیا اور اسے کچھ معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن کاشتکار نے معذرت کر لی۔ ان دونوں کی گفتگو کے دوران کاشتکار کا بیٹا بھی گھر سے باہر نکلا اور اپنے والد کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ نواب نے اس بچے کی طرف دیکھا اور کاشتکار سے پوچھا ”کیا تمہارا بیٹا سکول جاتا ہے“ کاشتکار نے انکار میں سر ہلا دیا اور جواب دیا ”نہیں“ یہ کسان کا بیٹا ہے اور اس نے کسان بننا ہے لہٰذا اسے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے“ نواب نے کاشتکار کو آفر کی کہ اگر وہ اجازت دے تو وہ اس کے بیٹے کی تعلیم کا بندوبست کر سکتا ہے۔ کاشتکار نے یہ آفر بھی ٹھکرا دی۔ اس پر نواب نے کاشتکار سے کہا کہ چلو ہم یہ بات بچے پر چھوڑتے ہیں۔ اگر بچے نے ہاں کر دی تو میں اسے سکول میں داخل کرا دوں گا اور اگر ناں کر دی تو میں اپنی آفر واپس لے لوں گا‘ کاشتکار مان گیا۔ اس کے بعد نواب نے بچے کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ”بیٹا کیا تم سکول جانا چاہو گے“۔ بچے نے ہاں میں گردن ہلا دی۔۔ قصہ مختصر نواب اس بچے کو ساتھ لے گیا اور اسے اپنے اس بچے کے ساتھ سکول میں داخل کرا دیا جس کی جان کاشتکار نے بچائی تھی۔
یہ دونوں بعدازاں دنیا کے نامور لوگ بنے۔ اس نواب کے بیٹے کا نام سرونسٹن چرچل تھا‘ چرچل دوبار برطانیہ کا وزیراعظم بنا‘ اس نے اتحادی فوجوں کو دوسری جنگ عظیم میں فتح کرایا‘اس نے ادب کا نوبل پرائز حاصل کیا‘ دنیا کا دوسرا ایٹم بم بنایا اور آئرن کرٹن یعنی آہنی پردے کی اصطلاح ایجاد کی جبکہ کاشتکار کے بیٹے کا نام سر الیگزینڈر فلیمنگ تھا۔ فلیمنگ نے پنسلین ایجاد کی تھی۔ ہم آج جو اینٹی بائیو ٹک دوائیں کھاتے ہیں یہ سر الیگزینڈ فلیمنگ نے ایجاد کی تھیں۔ فلیمنگ نے بھی سر کاخطاب حاصل کیا تھا اور اسے بھی نوبل پرائز ملا تھا۔