عباسی خلیفہ ہارون الرشید سے کسی نے پوچھا ”خلیفہ معظم آپ زندگی میں کبھی لاجواب ہوئے ہیں“ ہارون الرشید نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”تین بار“ اس کا کہناتھا وہ زندگی میں صرف تین بار لاجواب ہوئے‘ پہلا واقعہ مصر کے ایک جھوٹے نبی کے معاملے میں پیش آیا‘ اس شخص نے اعلان کر دیا کہ وہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہے‘ ہارون الرشید نے اس سے پوچھا ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بے شمار معجزے تھے اگر تم موسیٰ ہو تو مجھے وہ معجزے دکھاؤ‘ جھوٹے نبی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور ہارون الرشید سے بولا ”بادشاہ سلامت حضرت موسیٰ نے اپنے معجزے اس وقت دکھائے تھے جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا۔ آپ خدائی کا دعویٰ کیجئے میں اپنے معجزے آپ کے سامنے پیش کر دوں گا“۔
یہ سن کر ہارون الرشید لاجواب ہو گیا۔ دوسرا واقعہ ہارون الرشید کے ایک گورنر کے بارے میں تھا‘ اس علاقے کے لوگ گورنر کی شکایت لے کر ہارون الرشید کے سامنے پیش ہوئے لیکن خلیفہ نے جواب میں کہا ”میں اس گورنر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ وہ بے انتہا عالم‘ پارسا‘ انصاف پسند اور سادہ ہے“۔ خلیفہ کا جواب سن کر وفد کے سربراہ نے عرض کیا ”جناب ہم آپ سے اتفاق کرتے ہیں لہٰذا ہماری خواہش ہے ان کی سادگی‘ انصاف پسندی‘ پارسائی اور علم سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں‘ یہ بڑی زیادتی ہو گی کہ ان کی خوبیاں صرف ہم تک محدود رہیں“ اور تیسرا واقعہ ہارون الرشید کے دوست فضل بن سہیل کے بارے میں تھا۔ فضل بن سہیل ایک جنگ میں مارا گیا‘ اس کی شہادت کی خبر اس کی والدہ تک پہنچی تواس نے گریہ زاری شروع کر دی۔
خلیفہ ہارون الرشید اس کے قریب گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ”ماں تم نہ روؤ‘ آج سے فضل بن سہیل کی جگہ میں تمہارا بیٹا ہوں“ فضل کی ماں نے یہ سن کر پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں ونا شروع کر دیا۔ ہارون الرشید نے وجہ پوچھی تو والدہ بولی ”میں ایسے عظیم بیٹے کی موت پر کیوں نہ روؤں جو مرا تو مجھے ہارون الرشید جیسا بیٹا مل گیا“۔
یہ بات شاعرانہ حد تک تو درست ہے کہ فضل بن سہیل جیسے لوگوں کے مرنے کے بعد ماؤں کو خلیفہ ہارون الرشید جیسے بیٹے مل جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ اپنا بیٹا‘ اپنا بیٹا ہوتا ہے اور دنیا کا کوئی بیٹا قیامت تک س بیٹے کی جگہ نہیں لے سکتا۔