آم میں قدرتی طور پر شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ انسانی جسم میں داخل ہوتے ہی شوگر کی سطح کو بڑھا دیتا ہے۔
طبی ماہرین کی جانب سے ذیابیطس کے مریضوں کو بعض اوقات آم کھانے سے منع کیا جاتا ہے۔
کیا آم واقعی ذیابیطس میں اضافے کا باعث بنتا ہے؟ ذیابیطس کے شکار افراد کو آم کھانے سے کب پرہیز کرنا چاہیے اور کب وہ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟
ان سوالوں کے جواب میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے آم میں جو شکر موجود ہوتی ہے وہ فرکٹوز کی شکل میں ہوتی ہے، تاہم یہاں یہ بات اہم ہے کہ اس کا استعمال بھی محدود مقدار میں ہونا چاہیے۔
آم میں اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات، فائبر اور پوٹاشیم ہوتا ہے جو ہاضمے میں مدد دیتا ہے اور یہ اجزا بلڈ پریشر کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
فائبر خون میں آم سے شکر کے جذب ہونے کی رفتار کو سست کردیتا ہے اور یہ جسم کے لیے کاربوہائیڈریٹس کے بہاؤ کو منظم کرنے اور خون میں شکر کی سطح کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
آم کا گلائسیمک انڈیکس یکساں ہوتا ہے، لہٰذا اگر آم کو صحیح مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
کم گلائسیمک انڈیکس والی غذائیں معمول کے مقابلے میں آہستہ آہستہ ہضم اور جسم میں جذب ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں اچانک اضافے کے بجائے بلڈ شوگر کی سطح میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
کم گلائسیمک انڈیکس والے پھل کون کون سے ہیں؟
انگور، امرود، پپیتا، نارنگی، ناشپاتی، بیر، چیری، کیوی، انجیر، رسبری، آڑو، سیب اور بلیک بیری ایسے پھل ہیں جو کم گلائسیمک انڈیکس والے پھلوں کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں تو ان پھلوں کا استعمال آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
ان پھلوں میں چینی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا استعمال خون میں شوگر کی بڑھتی ہوئی سطح کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پھلوں میں اینٹی آکسیڈنٹس اور فائبر جیسے غذائی اجزاء بھی پائے جاتے ہیں جو ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں بہت فائدہ مند ہیں۔