خصوصی فیچرز

جس کمانڈر کی فوج پیاسی ہو


دنیا میں آج تک جتنے لیڈرز‘ جتنے فاتح اور جتنے سپہ سالارگزرے ہیں سکندراعظم کا شمار چوٹی کے چند جرنیلوں اور لیڈروں میں ہوتا ہے۔ سکندر اعظم یعنی الیگزینڈر دی گریٹ تین سو چھپن قبل مسیح میں مقدونیہ میں پیدا ہوا‘ بیس سال کی عمر میں بادشاہ بنا‘ بائیس سال کی عمر میں دنیا فتح کرنے نکلا‘ بتیس سال کی عمر میں اس نے 30ہزار کلومیٹر اور ستر ملک فتح کر لئے اور 33سال کی عمر میں وہ انتقال کر گیا۔اس کی اس ”ری مارک ایبل“ کامیابی نے تاریخ کو حیران کر دیا کیونکہ انسان اگر صرف پیدل چلے تو بھی یہ دس سال میں 30ہزار کلومیٹر سفر نہیں کر سکتا جبکہ سکندر نے دس سال میں تیس ہزار کلومیٹر رقبہ فتح کیا تھا۔

میں آپ کو یہاں یہ دلچسپ بات بھی بتاتا چلوں کہ سکندر اعظم پہلا شخص تھا جو ہندوستان میں گھوڑا لے کر آیا تھا۔اس سے پہلے ہندوستان میں گھوڑا نہیں تھا‘ اس نے ہندوستان میں پینٹ یا پائجامہ بھی متعارف کرایا تھا ‘ اس نے ہندوستانیوں کو ستون بنانے کا آرٹ بھی سیکھایا تھا اور یہ پہلا شخص تھا جس نے ہندوستانیوں کو بتایا تھا دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے ناظرین سکندر اعظم نے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام کیسے دیا تھا۔ وہ تاریخ کا عظیم ترین لیڈر کیسے ثابت ہوا۔ اس کی بے شمار وجوہات تھیں لیکن ایک وجہ زیادہ نمایاں تھی اور وہ وجہ تھی مساوات۔ سکندر اعظم عام سپاہیوں جیسی زندگی گزارتا تھا۔ وہ عام خیموں میں رہتا تھا‘ فوجی لنگر سے سپاہیوں کے ساتھ بیٹھ رک کھانا کھاتا تھا۔سپاہیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر لڑتا تھا اور ان کے ساتھ گھوڑوں پر اور پیدل سفر کرتا تھا۔ وہ کتنا بڑا لیڈر تھا اس کا اندازا آپ اس چھوٹے سے واقعے سے لگا لیجئے۔ سکندر اعظم اپنی فوج کے ساتھ مڈل ایسٹ کے ایک صحرا سے گزر رہا تھا۔ راستے میں پانی کی قلت ہوگئی۔ وہ فوج کے ساتھ دو ہفتے صحرا میں بھٹکتا رہا۔

پوری فوج پیاس سے ہلکان ہو گئی۔ سکندر اعظم فوج کے آگے آگے چل رہا تھا‘ راستے میں اس کے خادم نے پانی کا پیالہ بھرا اور اس کے آگے کر دیا۔ سکندر چار دن سے پیاسا تھا۔ اس نے پیالہ لیا اور پانی ریت پر گرا دیا۔ خادم نے اس ناراضگی کی وجہ پوچھی تو سکندر بولا ”جس کمانڈر کی فوج پیاسی ہو اس پر پانی کا ایک گھونٹ بھی حرام ہو جاتی ہے“ سکندر کا کہنا تھا ”میں اگر ان لوگوں کا کمانڈر ہوں تو مجھے اس وقت تک پانی نہیں پینا چاہئے جب تک میری فوج کے ایک ایک سپاہی کی پیاس نہیں بجھ جاتی“۔