میں آپ کو ایک حکایت سناناچاہتا ہوں لیکن حکایت سنانے سے پہلے آپ کو یہ عرض کر دوں کہ یہ محض ایک حکایت ہے‘ یہ کوئی مذہبی‘ دینی یا کوئی تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے ایک دن اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام فرشتوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا ”میں انسانوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں چنانچہ میں نے انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے“ فرشتوں نے عرض کیا ”باری تعالیٰ آپ مالک ہیں‘ اس پوری کائنات کے تمام فیصلے آپ فرماتے ہیں‘ ہم آپ سے پوچھنے والے کون ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود تھوڑا سا تجسس ہو رہا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ ہمیں انسان کی غلطی یا کوتاہی بتا دیں تا کہ ہم میں سے کوئی ایسی غلطی نہ کرے جس کی وجہ سے آپ ہم سے بھی ناراض ہو جائیں“۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہم نے اپنی تمام مخلوقات کو کوئی نہ کوئی ڈیوٹی سونپ رکھی ہے ۔ مثلاًسورج‘ چاند اور ستاروں کی ڈیوٹی چمکنا ہے۔ یہ ہمارے حکم کے مطابق ڈیوٹی سرانجادم دے رہے ہیں۔
ہوا کا کام چلنا ہے‘ جانداروں کو آکسیجن فراہم کرنا ہے اور زمین کا ٹمپریچر نارمل رکھنا ہے۔ ہوا بھی اپنی ڈیوٹی ذمہ داری سے سر انجام دے رہی ہے۔ ندیوں‘ آبشاروں‘ دریاؤں اور سمندروں کا کام بہنا ہے‘ پرندوں کا کام اڑنا اور چہچہانا ہے۔ تمہارا کام عبادت کرنا ہے اور درختوں اور پودوں کا کام زمین کو خوبصورت بنانا اور انسانوں کیلئے سہولت پیدا کرنا ہے۔ یہ سب بھی پوری ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں لیکن انسان ٹھیک نہیں نکلا۔ ہم نے اسے اشرف المخلوقات بنایا اوردنیا میں امن‘ ترتیب اور ڈسپلن پیدا کرنے کیلئے زمین پر بھجوایا تھالیکن اس نے پوری دنیا میں فتنہ اور فساد پھیلا دیا۔ اس نے پوری دنیا کا امن غارت کر دیا “۔ فرشتوں نے عرض کیا ”یا باری تعالیٰ آپ اسے کیا سزا دیں گے “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”خوشی اور سکون انسان کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں‘ ہم اس سے یہ اثاثہ چھین لیں گے اور اسے دنیا میں کسی خفیہ جگہ چھپا دیں گے اور اس کے بعد انسان سے کہیں گے اب تم اسے پوری زندگی تلاش کرتے رہو“۔فرشتوں نے پوچھا ”یا باری تعالیٰ آپ خوشی اور سکون کو کہاں چھپائیں گے“ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا ”تم بتاؤ وہ کون سی جگہ ہے جہاں میں خوشی اور سکون چھپاؤں اور انسان اسے تلاش نہ کر سکے“ ایک فرشتے نے عرض کیا ”آپ اسے دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر چھپا دیں“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”انسان میں چیلنج قبول کرنے کا مادہ ہے‘ یہ کبھی نہ کبھی اونچی چوٹی کو سر کر لے گا اور یوں خوشی اور سکون تک پہنچ جائے“۔
ایک فرشتے نے عرض کیا ”آپ اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیں“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”نہیں انسان رسک لینا جانتا ہے یہ کبھی نہ کبھی سمندر کی تہہ تک بھی پہنچ جائے گا“ ایک فرشتے نے عرض کیا ”باری تعالیٰ آپ خوشی اور سکون کو کسی دوسرے سیارے میں چھپا دیں“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”میں نے پوری کائنات کو انسان کیلئے قابل تسخیر بنا دیا ہے لہٰذاانسان کبھی نہ کبھی مریخ تک بھی پہنچ جائے گا“ بہرحال قصہ مختصر قارئین فرشتے مختلف مقامات کا ذکر کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ انکار کرتا رہا جب سب فرشتے لا جواب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”میں انسان سے خوشی اور سکون چھین کر اس کے اندر چھپا دوں گا۔ یہ زندگی بھر اپنے قیمتی ترین اثاثوں کو بیرونی دنیا میں تلاش کرتا رہے گا جبکہ خوشی اور سکون اس کے اندر موجود ہوں گے اور یہ انسان کیلئے بہت بڑی سزا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساری خوبیاں‘ اس کی ساری طاقتیں اس کے اندر چھپا رکھی ہیں لیکن ہم لوگ اپنے اندر جھانکنے کی بجائے ان سٹرنتھس‘ ان خوبیوں کو باہر تلاش کرتے رہتے ہیں چنانچہ اس عمر رائیگاں کے آخر میں ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔