اسگند ناگوری،جسے انگریزی میں’’ ونٹر چیری‘‘ کہا جاتا ہے، جڑی بوٹیوں میں دافع درد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کے صوبۂ سندھ، پنجاب، بلوچستان سمیت بھارت کے شہردہلی، یوپی اور بنگلاديش کے خشک اور گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ذائقہ تلخ اور مزاج گرم ہے۔ یہ پودا لمبائی میں قریباً 1 سے 4 فٹ تک بڑھتا ہے، جب کہ اس کی جڑیں پتلی، لمبی اور شاخیں قدرے گول ہوتی ہیں۔
اس پودے کا پھول زرد اور بعض اوقات سبزی مائل ہوتا ہے،جب کہ پھل غلاف کے اندر پايا جاتا ہے اور بیج پک جانے پر سُرخ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ایک ناگوری اور دوسری دکھنی۔عام طور پر اس کی ایک وقت کی خوراک 3 سے 5 معاشے تک استعمال کی جاتی ہے۔چوں کہ اس کے زائد استعمال سے گھبراہٹ اور بے چینی بڑھ سکتی ہے،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ استعمال سے قبل مستند طبیب سے مشورہ کرلیا جائے۔
اسگند ناگوری میں وٹامن بی- 12اور وٹامن6 پایا جاتا ہے۔اس کی جڑ اور پتّے بطور دوا استعمال کیے جاتے ہیں۔ يہ جڑی بوٹی اعصابی کم زوری اور ہڈيوں کے لیے خاصی مفید ہے،جس کا استعمال جسم کو فعال کرتا ہے،توذیابطیس کے مریضوں کے لیے اس لیےفائدہ مندہے کہ منہ کی خشکی دُور ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں، عرق النساء کے شکار افراد بھی اس کا استعمال کرسکتے ہیں۔ عمومی طور پر اسگند ناگوری کا سفوف ،صُبح و شام کھانے سے قبل آدھا چمچ دودھ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر ماہ واری کی زیادتی کا مسئلہ لاحق ہو، تو اسگند ناگوری 3 معاشے، رال سفید 2 معاشے اور مصری 6 معاشے مِکس کرکے سفوف بنالیں اور صُبح و شام پانی کے ساتھ طبیب کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق استعمال کريں۔ واضح رہے، حاملہ خواتین، گرم مزاج کے حامل، معدے کے مرض میں مبتلا اور بے خوابی کے شکار افراد طبیب کے مشورے کے بغیر اسگند ناگوری کاہرگز استعمال نہ کريں۔ یاد رکھیے،اس کے تخم(بیج)بہت زہريلے ہوتے ہیں اور ان میں جلد کیڑا لگنے کا بھی خدشہ پایاجاتا ہے، لہٰذاانہیں 2 سال سے زائد مدّت کے لیےمحفوظ نہ کیا جائے۔