امریکا کے ایک نوجوان کو بے تحاشا غصہ آتا تھا‘ وہ غصے کے عالم میں لوگوں کو گالیاں دیتا تھا‘ انہیں مارتا پیٹتا تھا اور میز‘ کرسی اور برتن بھی توڑ دیتا تھا۔ نوجوان کا والد اسے ایک سائیکلوجسٹ کے پاس لے گیا۔ سائیکلوجسٹ نے اسے کیلوں سے بھری ہوئی ایک بوری دی اور اسے مشورہ دیا کہ اسے جب بھی غصہ آئے تو وہ بوری سے ایک کیل نکالے اوریہ کیل گھر کے مرکزی دروازے میں ٹھونک دے۔ نوجوان بوری گھر لے گیا‘ پہلے دن اسے 60مرتبہ غصہ آیا اور اس نے دروازے میں ساٹھ کیلیں ٹھونک دیں‘ دوسرے دن کیلوں کی تعداد 55ہو گئی اور تیسرے دن کیلیں چالیس کے ہندسے پر آ گئیں۔
قصہ مختصر نوجوان ایک ماہ میں سمجھ گیا کہ غصہ برداشت کر لینا کیل ٹھونکنے سے آسان کام ہے چنانچہ وہ نفسیات دان کے پاس گیا اور اسے یہ خوشخبری سنائی کہ جناب آج میں نے سارا دن کوئی کیل نہیں ٹھونکا۔ نفسیات دان مسکرایا‘ اسے کیل اکھاڑنے والا اوزار دیا اور اس سے کہا ”اب تمہیں جب بھی غصہ آئے اور تم اپنے غصے پر قابو پا لو تو اس اوزار کے ذریعے دروازے سے ایک کیل نکال لیا کرو“۔ نوجوان نے اس ہدایت پر عمل کیا اور دو ماہ میں دروازے میں لگے ہوئے سارے کیل نکال لئے۔نوجوان نے یہ خوشخبری سائیکالوجسٹ کو سنائی تو نفسیات دان اس کے ساتھ اس کے گھر گیا‘ نوجوان کو کیلوں کے سارے نشان دکھائے اور اس سے کہا ”تم نے کیل تو سارے نکال لئے لیکن تم کیلوں کا نشان ختم نہیں کرسکے“ نفسیات دان بولا ”تم اب خواہ کچھ بھی کر لو دروازے کے یہ سوراخ ختم نہیں ہوں گے۔
یہ دروازہ کبھی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں آئے گا“۔ نفسیات دان کا کہنا تھا ”دنیا کے ہر غصے‘ ہر لڑائی اور ہر جنگ کا نتیجہ صلح ہوتی ہے‘ صلح کے دوران ایک فریق معافی مانگ لیتے ہیں اوردوسرا معاف کر دیتا ہے لیکن معافی کے باوجودغصے‘ نفرت اور حقارت کے سوراخ اپنی جگہ قائم رہتے ہیں“۔اس کا کہنا تھا ” دوستی‘ اعتماد اور محبت کا ٹوٹا ہوا رشتہ اس دروازے کی طرح کبھی اپنی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں جاتا چنانچہ تمہیں جب بھی غصہ آئے تو یہ سوچ لو کہ تم غصے کے بعد معافی تو مانگ لو گے لیکن رشتے اور دوستی کے دروازے پر تمہارے غصے کے نشان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہ جائیں گے۔