خصوصی فیچرز

نیلسن مینڈیلا کے تین حیران کن اقدامات


دنیا کے عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا 95 سال کی عمر میں 5 دسمبر 2013ء کو وفات پا گئے‘ یہ دنیا کے ان چند لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے انتقال پر پوری دنیا دکھی ہوگئی تھی‘ دنیا کیوں اداس تھی؟ اس کی وجہ نیلسن مینڈیلا کا کریکٹر تھا‘ یہ کس قدر عظیم انسان تھے‘ آپ اس کا اندازہ ان کے اقتدار کے ابتدائی دنوں سے لگا لیجئے‘ اقتدار میں آنے کے بعد نیلسن مینڈیلا کیلئے سب سے بڑا چیلنج انگریز بیورو کریسی تھی‘ انگریزوں نے ساؤتھ افریقہ پر تین سو پینتالیس سال حکومت کی ‘ ان ساڑھے تین سو سال میں انہوں نے ایک ایسا دفتری نظام بنا یا جسے صرف یہی لوگ چلا سکتے تھے‘ یہ لوگ اہل بھی تھے‘ سمجھدار بھی‘ دیانتدار بھی اور تعلیم یافتہ بھی جبکہ ان کے مقابلے میں مقامی لوگ غیر تعلیم یافتہ‘ نا اہل اور پسماندہ تھے۔ ساؤتھ افریقہ کے کالے ساڑھے تین سو سال سے انگریزوں کے نظام سے لڑتے آ رہے تھے‘

نیلسن مینڈیلا کا خیال تھا‘ ملک کے تمام اختیارات اگر شروع میں کالوں کو منتقل ہو گئے تو یہ انگریز کے نظام کو ”اون“ نہیں کریں گے یوں ملک تباہ ہو جائے گا جبکہ نیلسن مینڈیلا ساؤتھ افریقہ کو کامیاب ترین ملک بنانا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے گورے افسروں کو ان کی نوکریوں پر بحال رکھنے کا فیصلہ کیا‘ آپ خود اندازا کر سکتے ہیں‘ ایک ایسے شخص کیلئے یہ فیصلہ کس قدر مشکل تھا جسے گوروں نے 27سال قید میں رکھا اور ان 27برسوں میں قید تنہائی کے چھ سال بھی شامل تھے۔ نیلسن مینڈیلا نے یہ 27 سال سردیاں اور گرمیاں پتھر کوٹ کر گزارے‘یہ بعدازاں صدر بنے تو ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ گوروں سے جی بھر کر زیادتیوں کا بدلہ لیں‘ یہ گوروں کی جائیداد پر قبضہ کر لیں‘ گوروں کو قتل کر دیں‘ ان کی خواتین کو اپنے حرم میں داخل کر لیں اور تمام سرکاری نوکریاں مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیں لیکن نیلسن مینڈیلا جانتے تھے اس سے ان کا جذبہ انتقام تو سیراب ہو جائے گا مگر ملک تباہ ہو جائے گا‘ نیلسن مینڈیلا کے پاس دوسرا آپشن عام معافی تھا‘یہ اپنادل کھلا کریں‘ ساؤتھ افریقہ میں موجود تمام گوروں کو معاف کردیں اور سسٹم کو آگے چلنے دیں۔ نیلسن مینڈیلا نے دوسرا آپشن قبول کر لیا‘ یہ اپنے صدارتی آفس میں داخل ہوئے‘ اپنے حفاظتی عملے اور پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے تمام گورے اہلکاروں کو بلایا اور انہیں حکم دیا ”آپ اپنی جاب جاری رکھیں‘ میری حفاظت آپ ہی کی ذمہ داری ہو گی“ یہ حکم سن کر گورے بھی حیران رہ گئے اور نیلسن مینڈیلا کے سیاہ فام ساتھی بھی۔

ان لوگوں کو یہ حیرت ہونی بھی چاہئے تھی کیونکہ نیلسن مینڈیلا وہ شخص تھا جس نے ساؤتھ افریقہ میں گوروں کی ساڑھے تین سو سال طویل انا توڑی تھی ۔ گورے ان سے دل سے نفرت کرتے تھے لیکن وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی حفاظت کی ذمہ داری گوروں ہی کو دے رہے تھے‘ یہ حیران کن فیصلہ تھا اور اس فیصلے پر گورے بھی حیران تھے اور کالے بھی۔ نیلسن مینڈیلا کا دوسرا فیصلہ صدارتی آفس میں موجود گورے سٹاف کی بحالی تھا‘ انہوں نے آفس سیکرٹری سے لے کر پرنسپل سیکرٹری تک تمام گوروں کو اپنی جاب جاری رکھنے کا حکم دے دیا اور ان کا تیسرا فیصلہ پورے ملک میں موجود گورے بیوروکریٹس کو اپنی نوکریاں جاری رکھنے کی ہدایت تھی۔ نیلسن مینڈیلا کے ان تینوں فیصلوں نے جہاں پوری دنیا کو حیران کر دیا وہاں ساؤتھ افریقہ میں موجود گوروں کے دل بھی جیت لئے اور یہ لوگ دل و جان سے ساؤتھ افریقہ کے کالوں کی خدمت کرنے لگے۔