خصوصی فیچرز

سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس


سنہ 1187 تک سلطان صلاح الدین کو یروشلم آزاد کروانے کے عزم کا اعادہ کرتے ایک دہائی گزر چکی تھی۔ اب ان کے پاس شام اور مصر اور ’جزیرہ‘ کے علاقے کے وسائل کے ساتھ ایک وسیع سفارتی نیٹ ورک بھی تھا کہ وہ پوری توجہ اس مشن پر لگا سکیں۔فلپس لکھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں اور سرداروں سے نمٹنے میں صلاح الدین کا اتنا وقت لگ گیا کہ لوگ کہنے لگے کہ وہ اپنا مقصد بھول کر مسلمانوں سے ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ’سالوں کے پروپیگنڈے کے بعد اب سلطان کے لیے فیصلہ کن وار کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‘اسی سال ایک مقامی مسیحی نواب رینلڈ نے ایک تجارتی کارواں پر حملہ کر کے امن معاہدے کی خلاف ورزی کی اور پھر قیدیوں کو واپس کرنے سے بھی انکار کر دیا۔اب سلطان کے پاس حملہ کرنے کا جواز تھا اور انھوں نے اپنے اقتدار کی سب سے بڑی فوج جمع کی۔ ’ہر طرف ایوبی خاندان کے زرد پرچم لہرا رہے تھے۔‘ فلپس نے سلطان کے قریبی مؤرخ عماد الدین کے حوالے سے لکھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے زمین نے نے نیا لباس پہن لیا ہو۔ صلاح الدین نے کہا کہ یہی وہ دن ہے جس کا میں انتظار کر رہا تھا۔

دو جولائی کو سلطان کے فوجیوں نے طبریا (ٹائبیریاس) نامی ایک شہر کا گھیراؤ کر لیا جس کا حکمران لارڈ ریمنڈ مرکزی مسیحی فوج کے ساتھ تھا اور شہر کا انتظام ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں تھا۔ لارڈ ریمنڈ کی بیوی نے شہر پر سلطان کے قبضے کے وقت ایک قلعے میں پناہ لے لی۔ ایک لارڈ کی بیوی کو تحفظ فراہم کرنا علاقے کے مسیحی اشرافیہ کے لیے عزت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔فلپس نے مسلمان مؤرخ ابن الاثیر کا حوالہ دیا ہے کہ ’سلطان کے طبریا پر حملے کا صرف ایک مقصد تھا کہ مسیحی فوج کو اپنی پوزیشن چھوڑنے پر مجبور کیا جائے‘ اور اس میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔ اس جنگ کو معرکہ حطین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

معرکہ حطین کی اہمیت اور عکا شہر پر قبضہ

فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین کی معرکہ حطین میں کامیابی اور اس میں فرینکس کی فوج کی تباہی نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا۔ لیکن یروشلم حاصل کرنے کے لیے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ’اگلے سات ہفتے انھوں نے سلطنت یروشلم میں کئی زبردست مہمات کیں جن میں سے کئی کی قیادت انھوں نے خود کی۔‘

عکا کا شہر 8 جولائی کو فتح ہوا اور کئی دہائیوں میں پہلی بار وہاں 10 جولائی سنہ 1187 کو جمعے کی نماز ادا کی گئی۔ اس کے بعد بیروت فتح ہونے میں بھی زیادہ دن نھیں لگے۔

اشکیلون کو فتح کرنے میں دو ہفتے لگے۔ یہاں بھی صلاح الدین نے شہر والوں کے ساتھ سختی نہیں کی۔ ’وہ قتل عام کا سلسلہ نہیں چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ کہیں پر ان کے خلاف زیادہ مزاحمت نہ ہو اور ان شہروں کے قریب مسلمانوں کی بھی آبادیاں تھیں۔‘

اشکیلون کے باسیوں کو یروشلم جانے کا موقع دیا گیا جہاں وہ پناہ گزینوں کی اس بڑی تعداد کا حصہ بن گئے جو مذہبی جذبے سے یروشلم کے دفاع میں حصہ ڈالنے کے لیے وہاں پہنچ رہے تھے۔

سلطان صلاح الدین کی یروشلم آمد

صلاح الدین 20 ستمبر 1187 کو یروشلم پہنچے۔ شہر پر تیروں کی بارش تھی۔ ہر طرف نقاروں، ڈھول اور شدید نعروں کا شور گونج رہا تھا۔ شہر میں تیروں سے اتنا نقصان ہوا کہ اس وقت لاطینی مسیحی دنیا کے سب سے بڑے ہسپتال سینٹ جان ہسپتال کو بھی زخمیوں سے نمٹنے میں مشکلات پیش آنے لگیں۔

سلطان نے کہا کہ معرکہ حطین میں کامیابی اور یروشلم کی دیواروں کے باہر ان کی موجودگی خدا کی نصرت کا ثبوت ہیں۔ سلطان نے اپنی تقریر کا اختتام اس عزم پر کیا کہ ’وہ یروشلم سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ڈوم آف دی راک یا قبۃ الصخرہ پر ان کا قبضہ نہیں ہو جاتا۔‘

معرکہ حطین میں شکست کے بعد کسی مسیحی امدادی فوج کی آمد کا امکان ختم ہو چکا تھا۔ یروشلم کے بادشاہ تو معرکہ حطین میں قیدی بن گئے تھے اور ان کی جگہ شہر کے منتظم بالیان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے اور ہتھیار ڈالنے کے مذاکرات شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

شہر پر قبضے کے لیے خونی ٹکراؤ سے بچنے کے فوائد، مسلمان قیدیوں کی زندگی اور مقدس مقامات کی سلامتی کی صورت میں واضح تھے۔ اس کے علاوہ اس صورت میں مسیحی قیدیوں کے لیے ملنے والے ممکنہ تاوان کی شکل میں مالی فائدے کا بھی امکان تھا۔

ہتھیار ڈالنے کی تاریخ دو اکتوبر طے کی گئی جو جمعے کا دن تھا اور سنہ 1187 کی یہ رات معراج کی رات بھی تھی۔ اس تاریخ کی وجہ سے یروشلم کی فتح کا منظر دیکھنے کے لیے صوفیوں، درویشوں اور علما کو بھی وہاں پہنچنے کا وقت مل گیا۔