خصوصی فیچرز

استغفار کیا ہے؟؟


کسی شخص نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے بلند آواز سے ”اَستغفر اللہ“ کہا تو آپ نے اس سے فرمایا” کچھ معلوم بھی ہے کہ استغفار کیا ہے؟“ پھر فرمایا استغفاربلند منزلت لوگوں کا مقام ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جو چھ باتوں پر حاوی ہے۔
اول یہ کہ جو ہو چکا اس پر نادم ہو۔ دوسرا یہ کہ ہمیشہ کے لیے اس کے مرتکب نہ ہونے کا پکا ارادہ کر چکا ہو۔ تیسرا یہ کہ مخلوق کے حقوق ادا کرنا یہاں تک کہ اللہ کے حضور میں اس حالت میں پہنچو کہ تمہارا دامن پاک و صاف ہو اور تم پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ چوتھا یہ کہ جو فرائض تم پر عائد کئے ہوئے تھے اور تم نے انہیں ضائع کر دیا تھا انہیں اب پورے طور پر بجا لاوٴ۔

پانچواں یہ کہ جو گوشت حرام سے نشونما پاتا رہا ہے اس کو غم و اندوہ سے پگھلاوٴ یہاں تک کے کھال کو ہڈیوں سے ملا دو کہ پھر سے ان دونوں کے درمیان نیا گوشت پیدا ہو۔ اور چھٹا یہ کہ اپنے جسم کو اطاعت کے رنج سے آشنا کرو جس طرح اسے گناہ کی شیرینی سے لذت اندوز کیا ہے۔ اور پھر کہو ”استغفر اللہ“۔
وضاحت: اس فرمان سے یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ استغفار نہیں پڑھنا چاہیے یا بلند آواز میں استغفار پڑھنے میں کوئی برائی ہے بلکہ یہ فرمان استغفار اور استغفار پڑھنے والے کا صحیح مقام پہچاننے اور اپنے قول میں صادق ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس فرمان میں اس جانب اشارہ ہے کہ جب تک تو نے دنیا سے (جو گناہ اور فریب کا جہان ہے) منہ ہی نہیں موڑا‘ گزشتہ خطاوٴں سے صدق دل سے توبہ ہی نہیں کی تو تو کس حق سے اللہ سے مغفرت کا طلبگار ہو رہا ہے۔؟ ساتھ ساتھ اس جانب بھی اشارہ ہے کہ سر محفل باآواز بلند استغفر اللہ کہنے میں نفس کی خواہش پوشیدہ ہو سکتی ہے کہ لوگ میری زبان سے استغفار سن کر مجھے پاکباز سمجھیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ نے بلند منزلت لوگوں کی نشاندہی بھی فرما دی کہ ایسے لوگ اللہ سے مغفرت طلب کرنے کے حق دار ہیں جو گناہ کے جہان سے خود کو الگ کر چکے ہیں ورنہ جس نے گناہ کا ارادہ ہی نہیں چھوڑا جس نے اللہ کی جانب رخ ہی نہیں پھیرا اس کا یہ کہنا ہی درست نہیں ہے کہ میں اللہ سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔