خصوصی فیچرز

پاکستان کی تاریخ میں ایسے جج بھی گزرے ہیں


جسٹس صاحب کو وہاں پوسٹ ہوئے ابھی چند دن گزرے تھے کہ ایک دن وہ کورٹ میں مقدمے سن رہے تھے کہ کورٹ روم میں اچانک ایک خاتون داخل ہوئی‘ جج کی کرسی کے قریب پہنچی اور صمدانی صاحب کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے پکڑادیا
جنرل ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت ان کی والدہ حیات تھیں۔ ایوب خان کا گاؤں ہزارہ میں تھا اور اس کا نام ریحانہ تھا۔ ایوب خان کی والدہ گاؤں میں رہتی تھی‘ ایوب خان والدہ کا بے انتہا حترام کرتے تھے اور انہوں نے کبھی اپنی والدہ کی کوئی بات نہیں ٹالی تھی۔ پاکستان کے مختلف سیاستدان‘ مختلف بیوروکریٹس‘ مختلف صنعت کار‘ تاجر اور ٹھیکے دار جلد ہی اویب خان کی اس کمزوری سے واقف ہو گئے چنانچہ انہوں نے ماں جی سے سفارشیں شروع کرا دیں۔ ایوب خان کی والدہ پرانے خیالات کی ہمدرد خاتون تھیں چنانچہ ان کے پاس جو بھی آتا تھا وہ اسے سفارشی رقعہ بنا کردے دیتی تھیں اور اس شخص کا کام ہو جاتا تھا۔ 1966ء میں جسٹس کے ایم اے صمدانی ایبٹ آباد میں سیشن جج لگ گئے‘

اس دور میں ایماندار اور میرٹ پر کام کرنے والے زیادہ تر افسر ایبٹ آباد کی پوسٹنگ سے گھبراتے تھے کیونکہ ایبٹ آباد کے تمام افسروں کو روزانہ ماں جی کی طرف سے کوئی نہ کوئی رقعہ مل جاتا تھا اور اگر افسر وہ کام نہیں کرتا تھا تو صدر کے ایم ایس کا فون آ جاتا تھا چنانچہ لوگ ایبٹ آباد کی نوکری سے ڈرتے تھے لیکن جسٹس کے ایم اے صمدانی ذرا نڈر قسم کے جج تھے لہٰذا وہ چپ چاپ ایبٹ آباد چلے گئے۔ جسٹس صاحب کو وہاں پوسٹ ہوئے ابھی چند دن گزرے تھے کہ ایک دن وہ کورٹ میں مقدمے سن رہے تھے کہ کورٹ روم میں اچانک ایک خاتون داخل ہوئی‘ جج کی کرسی کے قریب پہنچی اور صمدانی صاحب کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے پکڑادیا۔ صمدانی صاحب نے حیرت سے خاتون سے پوچھا ”یہ کیا ہے؟“ خاتون نے اکڑ کر جواب دیا ”صدر ایوب کی والدہ کا آپ کے نام خط“ جج صاحب نے پوچھا ”لیکن میری تو ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رشتے داری نہیں پھر انہوں نے مجھے کیوں خط لکھ دیا“

خاتون نے جواب دیا ”یہ سفارشی خط ہے“ جج صاحب نے یہ سن کر ایک لمبا ”او“ کیا۔کرسی سے اٹھے‘ آتش دان کے پاس ئے وہ خط بغیر پڑھے آگ میں ڈال دیا اور خاتون کو کورٹ روم سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ جج صاحب اس واقعے کے بعد جتنی مدت تک ایبٹ آباد میں رہے انہیں ایوب خان کی فیملی کی طرف سے کوئی رقعہ نہیں ملا۔