پولینڈ کے ایک کنگ کے بارے میں کہا جاتا تھا وہ نسل انسانی کا ظالم ترین حکمران تھا ‘اس کے دارلحکومت کو دریا دونوں حصوں میں تقسیم کرتا تھا‘ شہر کا ایک حصہ دریا کے ایک کنارے پر آباد تھا اور دوسرا حصہ دوسرے کنارے پر۔ کنگ نے شہر کے دونوں حصوں کو ملانے کیلئے دریا پر پل بنوایا اور اس کے بعد پل کراس کرنے والوں کو اذیت دینے کیلئے اعلان کیا کہ جو بھی شخص پل پار کرے گا اسے کنگ کے خصوصی گارڈز دس جوتے ماریں گے۔ لوگ شروع شروع میں جوتوں سے بچنے کیلئے پل پر قدم رکھنے سے پرہیز کرتے رہے لیکن پھر آہستہ آہستہ انہوں نے اس سزا کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ لوگ آتے‘
مرغا بنتے‘ دس جوتے کھاتے اور پل پار کر جاتے اور کنگ محل کی بالکونی میں بیٹھ کر یہ نظارہ کرتا رہتا۔ بادشاہ زندگی بھر اس شغل کو انجوائے کرتا رہا یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آ گیا۔ آخری وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کی آنکھوں کے سامنے سے چند لمحوں میں اس کی ساری نیکیاں اور ساری برائیاں اس طرح گزاری جاتی ہیں جس طرح ٹیپ کا ”ری وائینڈ“ کا بٹن دبایا جاتا ہے اور پوری فلم تیزی سے چند لمحوں میں سکرین سے گزر جاتی ہے۔ کنگ کو بھی آخری وقت میں اپنے ظلم کا احساس ہو گیا اس نے کروان پرنس کو طلب کیا‘ اسے اپنا کان قریب لانے کا حکم دیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ”ہزہائی نس میرے مرنے کے بعد جب آپ ٹیک اوور کریں تو آپ زندگی میں کوئی ایسا کام ضرور کیجئے گا جس سے لوگ میری تعریف کریں اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں بادشاہ سلامت کا والد بہت اچھا اور رحم دل انسان تھا۔ “ کراؤن پرنس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کر لیا۔
کنگ نے اطمینان کا سانس لیا اور فوت ہوگیا۔ کنگ کے مرنے کے بعد کراؤن پرنس بادشاہ بنا تو اس نے اگلے ہی پل پار کرنے کی سزا دس کی جگہ بیس جوتے کر دی اور ساتھ ہی پل پار کرنے والوں کا (منہ) بھی کالاکرنے کا حکم جاری کر دیا۔ نئے بادشاہ کی یہ تکنیک بڑی افیکٹو ثابت ہوئی اور ایک ہی ہفتے میں سارا ملک مرحوم بادشاہ کو یاد کر کے یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ما شاء اللہ بادشاہ سلامت کے مرحوم والد صاحب بہت شریف النفس‘ رحم دل اور اچھے انسان تھے اور اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔